پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور پھر موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی آمد کے بعد پیشگوئی کی جا رہی تھی کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کو نہ صرف چار چاند لگ جائیں گے بلکہ بہت جلد ہم ایشیا کی منڈیوں میں اپنا اہم مقام بھی حاصل کر لیں گے۔خواب دیکھنا کوئی جرم نہیں اور ہم نے ایسے خواب کئی بار دیکھے ہیں، پاکستان میں حکومت سنبھالنے والی ہر جماعت کے یہی خواب ہوتے ہیں، پاکستان میں ووٹ ڈالنے والے ہر شہری کے سپنے بھی اس سے مختلف نہیں ہوتے اور ان دونوں کے حق پر اپنی من مرضی کا مظاہرہ کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کی توقعات بھی اپنی مرضی سے کامیاب کروانے والے افراد اور جماعت سے یہی ہوتی ہے۔پرویز مشرف کی حکومت ہو یا اس کے بعد پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی، پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد دوبارہ پی ڈی ایم ہو، ہم نے تو آج تک ان تمام کے منہ سے ایک ہی خوشخبری سنیں ہے کہ سابق حکومت ستیاناس کر گئی اور جو چھوہارے دودھ میں ملا کر ہم نے پاکستان کی معیشت کو اٹھانا تھا اس کے لئے دستیاب نہیں۔لہٰذا ہمارے بس کی بات نہیں اور عوام مہنگائی کی چکی میں پسنے کے لیے تیار ہو جائے۔ درحقیقت پاکستان میں یہ چکی ہی گزشتہ کئی دہائیوں سے چل رہی ہے اور سابقہ بیس سالوں سے اس چکی کی رفتار کئی گنا بڑھ چکی ہے، آج پاکستان میں آپ نے کسی بھی دوست عزیز سے بات کرتے ہیں تو ان کے رونے سے پہلے ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔پاکستان کی معیشت پر جتنا بوجھ پاکستان کی اشرافیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے مل کر ڈالا ہوا ہے کسی سیاستدان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ان اخراجات کو برداشت کر سکے۔ ہم اکثر اوقات سوشل میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنر لیول کا آفیسر بھی جن مراعات کو استعمال کرتا ہے تو آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کس حد تک سرکاری مراعات کے نشے میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس اشرافیہ کے ناز نخرے کو برداشت کرنا حکومت میں موجود سیاسی جماعت کے لیے ضروری اور مجبوری ہو جاتا ہے ورنہ اس سیاسی جماعت کی نظریاتی تشخص کو اس قدر نقصان پہنچایا جاتا ہے کہ بعد میں عمران خان جیسے پروجیکٹ لانچ کرنا پڑتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ پوری دنیا میں اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے، مگر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور اپنی کٹھ پتلیوں کو حکمران بنانے کے چکر میں پاکستان کی معیشت کا وہ کچومر نکل چکا ہے کہ وہ مہنگائی کے اس طوفان کا مقابلہ نہ کرسکی اور آج درحقیقت پاکستان میں کھانے پینے کی اشیا اگر ڈالر کو بھی مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو امریکہ جیسے ملک سے بھی مہنگی نظر آتی ہے۔اب ایسی صورتحال میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ایک بار پھر آزمانے کا فیصلہ کیا گیا کہ جس طرح ماضی میں انہوں نے پاکستانی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں مضبوط کرنے اور دیگر معاشی پالیسیوں کو لاگو کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کے اثرات بھی پاکستان کے مختلف شعبہ جات اور عام آدمی کی زندگی پر دیکھے گے شاید اب بھی ان کا یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگے۔مگر سچ پوچھو تو اب اسحاق ڈار بھی رات کو اُٹھ کر ڈر جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی معاشی حالت اور میری جادوگریاں اب اکٹھا کام نہیں کر سکتی کیونکہ ایک سیاسی حکومت کے دور میں بطور وزیر خزانہ کام کرنے والے اسحاق ڈار اور پی ٹی ایم کی چھتری کے نیچے فوجی جنرلوں کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشی پالیسیاں بنانے والے اسحاق ڈار میں زمین آسمان کا فرق ہو گا۔
سیاسی جماعت کے دور حکومت والے اسحاق ڈار کے سامنے پاکستان کی عوام تھی جبکہ اب والے اسحاق ڈار کے سامنے پاکستان کہ وہ اصل حکمران ہے جن سے شاید سیاسی جماعتیں پاکستان ٹھیکے پر لیتی ہیں۔ اس لیے حقیقت میں صورتحال اب اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ ان کے دعوے کرنے والے اسحاق ڈار بھی ڈر چکے ہیں کہ پاکستان کا بنے گا کیا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ڈار بول کر کہنا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان میں اب یا معاشی ایمرجنسی چلے گی یا اسٹیبلشمنٹ کی بدمعاشی چلے گی۔ لیکن ہمیں فیصلہ جلد کرنا ہے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
٭٭٭