حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شخصیت بطور تاجر مشہور و معروف تھی، ایک اچھا تاجر ایمان دار، ملنسار، خلیق، معاملہ فہم، فراخدل اور بات کا پکا اور قول کا سچا ہوتا ہے۔ یہ تمام صفات سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بدرجہ اتم موجود تھیں اور یہ تجارت کا پیشہ آپ کا آبائی پیشہ تھا۔ جس کی وجہ سے آپ مختلف لہجے اور حساب وکتاب کے ماہر تھے۔ قریش کے ان دس افراد میں شمار ہوتا تھا۔ جن کی شرافت قدر ومنزلت جاہلیت کے دور میں اور اسلام کے دور میں برابر قائم رہی۔ زمانہ جاہلت میں دیت اور تاوان کے فیصلے آپ ہی کیا کرتے تھے۔ تاجر کی تجارت اگر صاف ستھری ہو تو انسانی عادات و اطوار کو نکھار بخشتی ہے۔ اور نرم خوئی اور معاملہ فہمی پیدا کرتی ہے بلکہ اگر دیکھا جائے۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب بھی یہی تجارت نبی ربیعہ بن کعب فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ تجارت کے سلسلے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ملک شام تشریف لے گئے۔ یہاں قیام کے دوران آپ نے ایک رات ایک خواب دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے نیچے اُتر آئے ہیں۔ اور آپ کی گود میں داخل ہوگئے ہیں۔ آپ نے ایک ہاتھ میں سورج اور ایک ہاتھ میں چاند کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا ہے اور انہیں آپ نے اپنی چادر میں چھپا لیا ہے خواب سے بیدار ہوئے آپ کی عجیب حالت تھی۔ خواب کی تعبیر پوچھنے کے لئے وہاں علاقے کے ایک مشہور راہب جو خوابوں کی تعبیر بتانے میں ایک خاص مقام رکھتا تھا کے پاس پہنچے۔ راہب نے سارا خواب سن کر پوچھا۔ تم کہاں سے آئے ہو۔ آپ نے فرمایا مکہ مکرمہ سے پھر پوچھا کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہوئے۔ آپ نے فرمایا قریش سے پھر پوچھا کیا کام کرتے ہو آپ نے فرمایا تجارت کرتا ہوں۔ ایک تاجر ہوں راہب نے کہا اگر اللہ نے تمہارا خواب سچا کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ تمہاری قوم میں ایک نبی مبعوث فرمائے گا۔ اس کی زندگی میں تم اس کے وزیر بنو گے اور وصال کے بعد اس کے جانشین سیدنا صدیق اکبر نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا۔ کسی کو نہ بتایا ناآنکہ سرکار دو عالم نے جب اعلان نبوت فرمایا تو آپ نے یہ واقعہ سرکار دو عالم کی بارگاہ سنایا۔ پھر آپ کو گلے لگا لیا۔ ماتھا چوما اور کلمہ پڑھ کر ایمان سے مالا مال ہوگئے۔ قارئین کرام اگر تاجر ایماندار ہو، مخلص ہو۔ وفادار ہو۔ ملنسار ہو۔ تو ایمان ملتا ہے نبی ملتا ہے اگر تاجر بے ایمان ہو۔ بے وفا ہو۔ بداخلاق ہو، تو شیطان ملتا ہے اور پھر معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ذخیرہ اندوزی، چور بازاری مزدوروں کے حقوق غصب کرنا۔ اس کا شیوہ بن جاتا ہے۔ اس کا مطمع نظر دولت کا حصول بن جاتا ہے۔ پھر آٹے کا بحران، چینی کا بحران، گیس کی قلت ڈاکہ زنی کی وارداتیں عام ہوجاتی ہیں۔ نہ سماجی طور پر نہ معاشی طور پر استحکام رہتا ہے۔ کیونکہ تاجر بے ایمان ہوچکا ہے۔ ظالم ہوچکا ہے سو اے امیرے اہل اسلام اور اہل وطن بھائیو، اپنے تاجر کو ایمانداری کی راہ دکھائو نبی نہ سہی نبی کا راستہ ہی مل جائے۔
٭٭٭