سندھ کے بلدیاتی انتخابات!!!

0
67
پیر مکرم الحق

15جنوری2023کو صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔یہ انتخابات منعقد ہونے سے پہلے ہی متنازعہ ہوگئے یا بنا دیئے گئے تھے۔ متحدہ ان انتخابات کو نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر کروانا چاہ رہی تھی۔ گورنر ٹسوری کو جس طرح سندھ میں گورنر کے عہدے پر مسلط کیا گیا اور پھر متحدہ کے ٹوٹے ہوئے دھڑوں کو جوڑنے کی کوشش کو کامیاب کیا گیا اس سے اندازہ ہوگیا کہ پنجاب اور پختونخواہ کی حد تک تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو بظاہر تو سیاست لے الگ کردیا ہے لیکن سندھ اور بلوچستان ”انکی” نظر میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہیں تو اسی لئے ٹسوری کا ٹپکا لگایا گیا ہے۔ بلوچستان میں بھی لوٹا کریسی کو مزید ممکن بنایا گیا ہے۔ بظاہر اب تک کے نتائج سے یہی لگتا ہے کہ پی پی پی نے میدان مار لیا ہے لیکن جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے کراچی کی حد تک تو ان نتائج پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اور تحریک انصاف کے علی زیدی نے مکمل نتائج آنے سے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ انکی جماعت ان نتائج کو تسلیم نہیں کریگی۔ محسوس یہی ہو رہا ہے کہ آنے والے انتخاباتت کے سلسلے میں بھی تحریک انصاف یہی رویہ اپنائے گی۔ تحریک انصاف ایک معتدل سیاسی جماعت کے بجائے محلے کی وہ”بی جمالو”ماسی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے جسکی اگر بات نہ مانی جائے تو وہ پھٹ سے کہہ دیتی ہے کہ میں نہ مانوں!!! متحدہ کے اتحاد کے باوجود بھی انتخابات کی بنیادی حلقہ بندیوں پر اعتراض تو سمجھ آتا ہے لیکن درحقیقت انکے اتحاد کے فوراً بعد لوکل باڈیز کے انتخابات میں مختلف دھڑوں کے درمیان ٹکٹوں کا بندر باٹ ایک پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف تھا اگر ایسا کوئی کام ہوتا تو پھر بے اتحاد عارضی اتحاد کے بجائے بدترین فساد میں تبدیل ہوجاتا۔ کراچی والوں کو کل سے پھر بوری بند لاش ملنا شروع ہوگئی اور کراچی کا مستقبل اب پھر تاریک نظر آنے لگا ہے۔ ادھر تحریک انصاف نے آنے والے تمام انتخابات کو شیڈپول آنے سے پہلے ہی متنازعہ بنا دیا ہے عمران خان نے جس طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کیا ہوا ہے۔ اس میں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن اس سارے جھگڑے میں ملک کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عالمی معاشی بدحالی کی لہر نے پہلے سے معاشی طور پر کمزور پاکستان کو نڈھال کرکے رکھ دیا ہے۔ اور ڈیفالٹ کی تلوار کے سائے میں مزید تنازعات کا متحمل نہیں رہا ہے پاکستان لیکن خان صاحب ہیں کہ ضد کرتے جارہے ہیں کہ یا تو مجھے اقتدار پلیٹ میں ڈال کردے دو یا پھر میں اس ملک کو چلنے ہی نہیں دونگا!؟۔ ”ناکھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے” کہ اس رویے نے پاکستان کی سالمیت کے آگے ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں عمران خان اور انکی جماعت کا اثررسوخ نہ ہونے کے برابر ہے اندرون سندھ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ہے حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ چھوٹے صوبوں کی عوام نے عمران خان کے چورن میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ سندھ کی عوام نے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو جیسی قد آور قیادت کو قریب سے دیکھا ہے۔ انہیں خالص سونے اور گولڈ پلیٹیڈ سونے کا فراق جانچنا آتا ہے وہ سڑک چھاپ مداریوں کے جھانسے میں نہیں آئے ویسے بھی سندھ میں تحریک انصاف کی قیادت لیاقت جتوئی اور علیم عادل شیخ جیسے دو نمبر سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ویسے تو وفاقی سطح پر وہی عمران خان، شیخ رشید، فواد چودھری اور شہباز گل جیسے تیسرے درجے کے سیاستدانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے جو گند ڈالا ہے اس کی کافی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ(سابقہ) پر بھی آتی ہے۔ حالات کچھ ایسے بن رہے ہیں کہ آگے چلا کر کچھ ماورائے آئین اقدامات ہی اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ رہ جائیگا۔ جوکہ اس ملک کی بدقسمتی ہوگی۔ لیکن محسوس یہی ہو رہا ہے کہ یہ کڑوی گولی سیاسی تحریک کاری کی بیماری کا واحد حل بنتا جارہا ہے۔ جمہوریت ان سیاسی جماعتوں کے صحتمند مقابلے میں ممکن ہیں جو اس کھیل کے مروجہ یا آئینی طریقے سے مقرر شدہ اصولوں کے مطابق حصہ دار بننے کے لئے تیار ہوں۔ سیاسی عمل میں لوگ آتے جاتے رہینگے لیکن آمرانہ سوچ یا رویوں سے ملک کبھی بھی جھمہوری انداز سے نہیں چل پائیگا۔ پاکستان چار صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر مشتمل اکائی فیڈریشن ہے جس میں اٹھارویں ترامیم کے ذریعے صوبوں کے اختیارات موجود ہیں۔ پاکستان صرف پنجاب اور پختونخواہ کا نام نہیں ہے اور عمران خان جدید دور کے محمد بن قاسم بننے کی کوشش نہیں کریں۔ جو رہنما اچھی اور بڑی باتیں کرتا ہے اور اندر سے حد درجہ کریہہ ہو جو اپنی جماعت کی خواتین سپورٹرز کو اپنی ملکیت سمجھتا ہو ایسے دور حاضر کے یزید کو ہم نہیں مانتے۔
ظلمت کو ضیائ
سر سے کو صبا
بندے کو خدا، کیا رکھنا؟!
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے
سوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو
قسمت کا رکھا کیا رکھنا؟؟؟
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here