چند مہینے پہلے میں نے اُردن میں موجود فلسطینی مہاجرین کیمپوں میں کچھ دن گزارے جو میری زندگی کا ایک یاد گار ترین وقت تھا۔ یہ چند دن یوں تھے گویا میں نے “مزاحمت” کی نفسیات پر کئی کتابیں پڑھ ڈالی ہوں ، میں جو فرانس میں شامی مہاجرین سے لے کر بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین تک کئی مہاجر کیمپوں میں وقت گزارنے کے بعد سوچنے لگی تھی کہ سب مہاجر کیمپوں میں ایک جیسی نفسیات ایک جیسی نفسا نفسی ایک جیسا غم ایک جیسی مفلوک الحالی ہوتی ہے ۔لیکن فلسطینیوں نے میری سوچ بدل دی،یہ وہ لوگ ہیں جن سے دنیا کو حق کی جنگ میں مزاحمت سیکھنی چاہیئے ۔ میرے لئے حیران کن تھا کہ کیسے اسی سال کے بوڑھے سے لے کر آٹھ سال کا بچہ تک ایک ہی عزم کے ساتھ مزاحمت پر یکسو ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چار نسلیں ایک ہی شدتِ جذبات کے ساتھ اپنے وطن واپس جانے کے عزم پر قائم ہوں ، ایک اسی سالہ فلسطینی خاتون جو اڑتالیس میں اپنے والد کے کندھوں پر ہجرت کر کے فلسطین سے اردن آئی تھیں ، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی ساری زندگی یہاں گزر گئی ، اب آپ کی اگلی تین نسلیں یہاں موجود ہیں ، اگر آپ کو فلسطین واپس جانے کا موقع ملے تو کیا آپ واپس جائیں گی ؟ ایک لمحے کے توقف کے بغیر انہوں نے جواب دیا کہ” بغیر جوتوں کے”۔ مطلب یہ کہ میں جوتے پہننے میں بھی وقت ضائع نہیں کروں گی ۔ اسی طرح ایک سات سال کے بچے سے پوچھا کہ تم تو یہاں اردن میں ہو ، تم بڑے ہو کر فلسطین کو بھول جاو گے ۔ تو وہ غصے میں آگیا ۔ کہنے لگا ” یہ کیسے ممکن ہے ؟ میں فلسطینی ہوں اور فلسطین میرے دل میں ہے ، میں سوچتی رہی کہ مزاحمت کی وہی شدت نسل در نسل چلتے رہنا کیسے ممکن ہے ۔ اس کا جواب فلسطینی عورت ہے جس نے اس فلسطینیت اور مزاحمت کی لو ماند نہیں پڑنے دی ، ہر فلسطینی عورت اس تحریک میں بطور ایک ماں شریک ہے جو اپنے بچوں کی تربیت کی زریعے اپنے محاذ پر کامیاب کھڑی ہے ۔ یہ مائیں ہوتی ہیں جن کے بل پر کوئی تحریک کوئی نظریہ کوئی تہذیب زندہ رہتی ہے ۔مہاجر کیمپوں میں ہر جگہ بلکہ ہر گھر میں مجھے دیوار پر چابی لٹکی نظر آئی ۔ استفسار پر مجھے میری فلسطینی میزبان نے بتایا کہ ہم فلسطینیوں کی مزاحمت کا نشان ”چابی”ہے ، ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ تمہارے گھروں پر بے شک کسی کا قبضہ ہو لیکن اس کی چابی تمہارے پاس ہے ۔ ان تمام مہاجرین کے گھروں میں فلسطین کا نقشہ دیوار پر لگا ہوتا ہے جس میں اس علاقے کو نشان لگایا ہوتا ہے جہاں انکا گھر تھا ۔ یہ لوگ ہر سال مئی میں اپنی ہجرت کا دن مناتے ہیں جس کی تیاری کئی دن پہلے سے ہوتی ہے ۔ اس دن خاندان کے تمام لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور بوڑھے اپنی ہجرت کی تمام تفصیل دوبارہ اپنے بچوں کو سناتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ کس علاقے کے کس گائوں سے انکا تعلق تھا اور ان کے کھیتوں میں کیا فصلیں کاشت ہوتی تھیں ، ان کے گھروں کے دروازے کیسے تھے اور ان کے صحنوں میں کون سے پھلوں کے درخت تھے۔ انہیں بتاتے ہیں کہ انہیں کس طرح گھروں سے بے دخل ہونا پڑا اور ان پر کیا گزری ۔ اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کی نسلیں جہاں بھی ہیں، عارضی ہیں، انہیں اپنے وطن واپس جانا ہے ۔یہ جان کر مجھے بے حد حیرت ہوئی کہ یہ فلسطینی مہاجر صرف اس لئے اُردنی شہریت نہیں لیتے کہ ان کا فلسطین کی زمین پر حق ختم نہ ہو جائے حالانکہ اردنی انہیں شہریت دینا چاہتے ہیں اور شہریت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نہ تعلیم کے مواقع ملتے ہیں نہ روزگار کے اور نہ ہی مفت میڈیکل کی سہولیات ۔ یہ مثال دنیا میں واحد ہے ، میں نے کسی اور قوم کے مہاجرین کو مزاحمت کے اس معیار پر پورا اترتے نہیں دیکھا جن لوگوں نے اپنا حق اپنی مزاحمت سہولتوں کے بدلے بھی نہیں بیچے ، انہیں ختم کرنا تو ممکن ہے، انہیں شکست دینا ممکن نہیں ۔
٭٭٭