ایک تو نیند نہیں آتی اور اگر آتی ہے تو کوئی صبح چھ بجے فون کرکے جگا دیتا ہے،گرجدار آواز میں مخاطب ہوئے کہتا ہے کہ فون پر ہونے والی یہ گفت وشنید کی ریکارڈنگ ہورہی ہے، اور پھر اپنا مدعا بیان کہتے ہوئے کہتا ہے کہ اُس کی کمپنی ہمارے گھر کے چھت پر سولر پینل لگاسکتی ہے جس سے ہماری الیکٹرک کی بِل صفر آیا کرے گی، گرجدار آواز سُن کر تو مجھے یہ بدگمانی ہوجاتی ہے کہ کوئی پولیس والا ہے یا نہیں تو ضرور کوئی ایف بی آئی کا ایجنٹ جو بیس سال پُرانی کتاب کے سلسلے میں پوچھ گچھ کرنے آیا ہے یا گرفتار کرنے، ورنہ میں تو ایک لفظ سنتے ہی فون ہینگ اپ کردیتا ہوں. لہٰذا اب میری باری تھی اور میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا تمہیں کسی عقل و شعور سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ہے جو صبح چھ بجے اُٹھ کرسولر پینل لگانے کی باتیں کر رہے ہو، ارے گدھے کے بچے ہمارا گھر ایسوسی ایشن سے منسلک ہے اور کسی بھی اُکھاڑ پچھاڑ کا فیصلہ صرف وہی کرتی ہے تو جاؤ اُن سے باتیں کرو، اُس نے معذرت چاہ لی اور کہا کہ وہ چائنا سے کال کر رہا تھا اور اُسے پتا نہ تھا کہ نیویارک میں اِس وقت صبح کے چھ بج رہے ہیں، میں نے اُسے مشورہ دیا کہ آئندہ جب بھی کال کرے تو بڑا سا گلوب سامنے لے کر بیٹھا کرے،سمجھے نا، اِسی دوران مجھے اپنے دوست کی کہانی یاد آگئی جس نے مفت کی سولر پینل لگوالی تھی اور اِنسٹال کرنے والا ٹیکنیشن آدھا کام کرکے بھاگ گیا تھا، اِس لئے جب بھی بارش ہوتی تو اُس کے گھر میں اتنا پانی جمع ہوجاتا تھا جس پر با آسانی کشتی چلائی جاسکتی تھی لیکن سولر پینل والے کوئی تن و تنہا اِس ضمن میں نہیں بلکہ ہزاروں کمپنیاں ٹیلی مارکٹنگ کے پیشے سے وابستہ ہیںجن میںانرجی سیونگ کمپنی نمبر ون ہے،یہ وہی کمپنی ہے جو آپ کو بے دھڑک بغیر کسی موقع محل کو دیکھے ہوئے کال کرتی ہے، میں تو نہیں لیکن میرے ایک دوست اُن کے جال میں پھنس گئے تھے،وہ بیچارے ایک سال قبل ہی امریکا آئے تھے اور اُن کا قیاس تھا کہ امریکا میں ہر شخص ایماندار ہے ، اور لوٹ مار اور سر راہ رقمیں یا سیل فون جھپٹ لیا جانا محض تنگ نظر لوگوں کا پروپگنڈا ہے،لہٰذا جب اُنہیں انرجی سیونگ کمپنی کے ایک بندے نے کال کرکے یہ پیشکش کی کہ اُس کی کمپنی اُن کے الیکٹرک کے بِل میں نصف کمی کرسکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے بِل کو اُسکی کمپنی سے لینے کی منظوری دے دیں، اُنہوں نے سوچا کہ اِس سے بہتر اور کیا موقع ہوسکتا ہے، اُن کی ماہانہ الیکٹرک اور گیس کی بِل اوسطا”تین سو ڈالر کی آتی ہے ، اور وہ اُس میں سے ایک سو پچاس ڈالر بچا لیا کرینگے چونکہ وہ پاکستان میں اخبار کے ایک رپورٹر تھے، اِس لئے اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ بغیر چند سوال پوچھتے ہوئے وہ ایسا نہیں کرینگے، اُنہوں نے سب سے پہلے سوال کیا کہ آخر کس طرح انرجی سیونگ کمپنی اُن کے الیکٹرک کے بِل نصف کرے گی،تو جھانسہ دینے والی کمپنی کے نمائندے نے جواب دیا کہ اُس کی کمپنی ملک بھر کے پاور کمپنیوں سے تھوک کے بھاؤ الیکٹرک خرید کر وہ خود اُسے ڈسٹری بیوٹ کرتی ہے ، اور اِس طرح اُس کی لاگت میں نصف کمی ہوجاتی ہے، اخباری رپورٹر نے سوچا کہ یہ ایک معقول جواب ہے،اُنہوں نے دوسرا سوال کیا کہ اِس موقع سے مستفید ہونے کیلئے اُنہیں کوئی فیس وغیرہ دینی پڑے گی تو جھانسہ دینے والی کمپنی کے نمائندے نے جواب دیا کہ نہیں صرف وہ اُن کے سابقہ بِل سے کچھ اطلاعات معلوم کرے گا اور اُن کی بِل کون ایڈیسن کے بجائے انرجی سیونگ کمپنی سے آنا شروع ہوجائیگی،سارا کاغذی کام بخیر خوبی انجام پا گیا اور رپورٹر صاحب یہ انتظار کرنے لگے کہ کب سے اُن کے الیکٹرک اور گیس کی بِل میں کمی ہونا شروع ہوجائیگی بہرکیف پہلے ماہ میں اُنہیں الیکٹرک اور گیس کی دو بِلز آئیں جن میں ایک کون ایڈیسن سے اور دوسری انرجی سیونگ کمپنی سے . وہ اُسے دیکھ کر سخت چراغ پا ہوگئے، جھانسے دینے والی کمپنی کے نمائندے نے اُنہیں دلاسا دیا کہ وہ اُسے ایڈجسٹ کردے گا لیکن اُس نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا، دوسرے ماہ بِل وعدے کے لحاظ سے ڈیڑھ سو ڈالر کی آنی چاہیے تھی لیکن وہ چار سو ڈالر کی تھی، جب رپورٹر صاحب نے انرجی سیونگ کمپنی کے دفتر کال کیا تو کسی نے بھی اُن کے کال کا جواب نہیں دیا، بالآخر اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بجلی کی بِل ادا نہیں کرینگے ، ایک ماہ میں تو اُن کی بجلی کی بِل جو تین سو ڈالر کے قریب آتی تھی بارہ سو ڈالر کی آگئی، ایک وکیل کے مشورے پر وہ اپنا مقدمہ نیو یارک سٹی کنزیومر افیئرز کے پاس لے کر گئے اور اُن کی کُل واجب الادا رقم میں نصف معاف کر دی گئی،رات کے آخری پہر یا صبح سویرے فون کا آجانا لوگوں کی ایک عام شکایت ہے لیکن میں بھی کبھی کبھی اِس کی طبع آزمائی کر لیتا ہوں جب پاکستان کی ٹیم نے آسٹریلیا کو کرکٹ میچ میں شکست دے دی تھی تو اُس وقت صبح کے چار بج رہے تھے، میں نے اپنا قومی فرض سمجھا کہ ہر ایک کو جگا کر اِس کی خوشخبری سنادی،ٹھیک ہے بعض دوستوں نے اِسے خوش آمدید نہیں کہا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ” ہاں ہوں اچھا جیت گئی، کل بات ہوگی ” کل کیا بات ہوگی ، صبح کے پانچ بج رہے ہیں،نیویارک پولیس وٹیران یا فائر ڈیپارٹمنٹ ویلفئیر فنڈ زکا ٹیلیفون آجانا ایک عام سی بات ہے،چندہ لینے کا اُن کا اصرار اتنا پُر زور طریقہ سے ہوتا ہے جس کا انکار کرنا ناممکن بن جاتا ہے، دوسری مصیبت یہ ہے کہ پولیس وٹیران کی ایک نہیں بلکہ چار مختلف تنظیمیں ہیں،آپ نے ایک کو چندہ دیا تو چند دِن بعد دوسرے کا ٹیلیفون آجاتا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے جنہیں چندہ دیا تھا وہ پولیس وٹیران کی دوسری تنظیم تھی، اِسلئے اب جب بھی اُن کا ٹیلیفون آتا ہے تو میں یہی جواب دیتا ہوں کہ میں ڈرائیو کر رہا ہوں۔