خود اپنے ہی دام میں صیاد آگیا!!!

0
4
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ہماری پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم نے جس طرح کی کارکردگی دکھائی ہے اس نے ہماری سلیکشن کمیٹی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہوگا کہ ہم نے کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا،اسپن وکٹ بنا کر پہلا ٹیسٹ تو آپ نے جیت لیا، ہماری بائولنگ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا لیکن ہماری بیٹنگ لائن پھر بھی نہیں سمجھ سکی اور متواتر فلاپ ہوتی رہی۔ ویسٹ انڈین نے تو ایک ٹیسٹ ہار کر اپنے آپ کو اسی حساب سے ایڈجسٹ کر لیا اور ان کی آخری وکٹ نے جس طرح دونوں ٹیسٹ میچوں میں کارکردگی دکھائی اور ہمارے ماسٹر بیٹسمینوں نے جس طرح اپنی وکٹیں گنوائی ہیں انہوں نے ویسٹ انڈیز کیلئے جو گڑھا کھودا تھا اس میں خود ہی گر گئے۔ ہمارے سٹار کھلاڑیوں نے جس لاپرواہی کا مظاہرہ کیا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور ہمارے کپتان نے جس طرح ہمارے نئے فاسٹ بائولر کو استعمال کیا وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ان کو صڑف اور صرف ساجد خان اور نعمان علی پر بھروسہ تھا جبکہ ابرار احمد بھی عمدہ بائولر ہے لیکن اس سے کم گیند کروائی گئی کاشف علی سے ایک اوور کروا کر تبدیل کر دیا گیا جبکہ اس کو چانس دیا تو وہ بھی وکٹیں لیتا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل تھی اور اس نے ہماری اے کلاس ٹیم کو جس طرح ڈھیر کیا وہ ان کے کپتان کی حکمت عملی تھی انہوں نے جس طرح کی بیٹنگ اور بائولنگ کی وہ ہماری ٹیم کیلئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ ہمارے اسپنرز نے جو کارکردگی دکھائی وہی کارکردگی ویسٹ انڈیز کے اسپنرز نے بھی دکھائی، ہمارے چیف سلیکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ہم فاسٹ بائولرز وکٹیں لیں تو انہوں نے جتوایا، اسپنرز وکٹیں لیں تو انہوں نے جتوایا ہمارا کوئی معیار ہی نہیں ہے، واقعی ہمارا کوئی معیار نہیں ہے لیکن آپ بھی تو اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کیا کر رہے ہیں ہمارے بیٹسمین وہ کارکردگی کیوں نہیں دکھا رہے جو ان کو دکھانی چاہیے کیسے کیسے شارٹ کھیل رہے ہیں، افسوس کا مقام ہے ویسے ہونا بھی یہی چاہیے تھا کہ ہمارے ٹیم کی حالت دیکھ کر ہمارے چیئرمین جو کرکٹ کو سدھارنے کا تہیہ کر کے بیٹھے ہیں وہ امریکہ میں حلف برداری کی تقریب میں کسی طرح شامل ہونے کیلئے ہر طرح کی کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح کوئی تصویر کھینچ جائے کہ وہ ٹرمپ کی تقریب میں شریک ہوئے حالانکہ وہ کافی دن پہلے سے امریکہ آگئے تھے لیکن اس کے باوجود وہ دعوت نامہ حاصل نہ کر سکے ایک سوال ہے کہ وہ بلاول بھٹو سے تو آگے نہیں ہیں جب بلاول بھٹو شریک نہ ہو سکے تو محسن نقوی صاحب کیسے شرکت کرسکتے تھے اور واقعی یہ ہماری حکومت کیلئے ایک لمحۂ فکریہ ہے پاکستان گورنمنٹ کو کوئی بھی آفیشل دعوت نامہ نہیں ملا۔ دفتر خارجہ کی طرف سے کوئی حکمنامہ جاری نہیں ہوا۔ شدید سردی کی وجہ سے یہ تقریب انڈور منعقد ہوئی جس کی وجہ سے تمام انتظامات مشکلات کا شکار ہو گئے۔ مودی کو دعوت نامہ بھیجا گیا لیکن ہمارے وزیراعظم کو نہیں بلایا گیا۔ ہم لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ کسی طرح ٹرمپ عمران خان کی رہائی کا اعلان کر دے یہ فیصلے اس طرح نہیں ہوتے یہ کسی بھی ملک میں مداخلت مانا جاتا ہے ویسے ہمارے ملک میں تو یہ عام سی بات ہے بیرونی مداخلت سے ہی حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں کیونکہ ہم غلام قوم ہیں، اور ہمیشہ غلام ہی رہینگی۔ غلامی سے نجات دلانے کو پابند سلاسل کر دیا گیا اب کون آواز اٹھائے گا ہمارے وزیر داخلہ ٹیکساس کے شہر بومائونٹ میں خاموشی سے آئے اور چلے گئے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی قریبی دوستوں کو بلا کر اور ہمارے کانگریس مین شریف النفس انسان کو اپنے تعلقات کی بناء پر بلا لیا گیا اگر ان میں اتنی ہمت تھی تو ہیوسٹن میں کوئی تقریب ہوتی اور وہ لوگوں کے سامنے آتے مگر لوگوں کو سامنے آنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔ بہرحال دلی افسوس ہو اکہ ہماری پاکستانی کمیونٹی سے کوئی بھی ایسی بڑی شخصیت صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں نظر نہیں آئی جس کی وجہ سے ہمیں شرمندگی کا احساس ہو رہا ہے کہ اب ہماری یہ وقعت ہو گئی ہے کہ ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھا گیا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here