کابل (پاکستان نیوز) افغانستان میں حکومت سازی کے لیے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے ، انس حقانی کی سربراہی میں طالبان کے وفد کی سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی جبکہ انس حقانی کی سربراہ حزب اسلامی گل بدین حکمت یار سے بھی ملاقات ہوئی ، اقوام متحدہ نے موقف اپنایا ہے کہ وہ طالبان کے اقدامات کا انتظار کریں گے ، ترک صدر طیب اردوگان نے کہا ہے کہ وہ طالبان سے تعاون کے لیے تیار ہیں ، صدر جوبائیڈن نے برطانوی وزیراعطم بورس جانسن کے ساتھ ٹیلی فون پر افغان بحران پر تبادلہ خیال کیا ہے ، دونوں رہنمائوں نے اگلے ہفتے افغانستان کے بحران پر جی سیون کا ورچوئل سربراہ اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔افغانستان سے فرار ہونے والے سابق افغان صدر اشرف غنی کی یو اے ای میں موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے، دوسری طرف افغانستان میں 20سال تک افغانستان میں بھاری و جانی مالی نقصان کے بعد آخر کار امریکہ جنگ ہار گیا ہے ، امریکہ کے تربیت یافتہ افغان فوجی اور پولیس اہلکار طالبان کے سامنے بھیگی بلی بن گئے ، کوئی مقابلہ نہ کرسکا ، امریکی اور اتحادی افواج کی افغانستان سے واپسی کے ساتھ ہی طالبان نے کابل کی طرف پیش قدمی شروع کی تو افغان افواج فرار ہوتی نظر آئی ، افغان صدر اشرف غنی ڈالروں سے بھری گاڑیوں کے ساتھ متحدہ عرب امارات فرار ہوگئے ، آرمی چیف سمیت بڑے عہدیداران نے تاجکستان سمیت ہمسایہ ممالک میں پناہ لے لی ، افغان طالبان نے کابل کے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا اور تمام غیر ملکیوں ، سرکاری ملازمین اور خواتین کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے معاملات کو معمول کے مطابق جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے ۔ اکتوبر 2001 میں امریکہ نے طالبان کو بے دخل کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا، 2010 سے لے کر 2012 کے درمیان، جب امریکہ کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی افغانستان میں موجود تھے، تو اس جنگ پر آنے والی لاگت ایک کھرب ڈالر سالانہ تک بڑھ گئی تھی۔امریکہ کی فوج نے اپنی توجہ جارحانہ کارروائیوں سے ہٹا کر افغان افواج کی تربیت پر مرکوز کی تو ان اخراجات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے اور 2019 (ستمبر تک) کے لیے خرچ کا تخمینہ 38 ارب ڈالر ہے۔محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔اس کے علاوہ محکمہ خارجہ، ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالر خرچ کیے۔ 2001 میں جنگ کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک رہی، افغانستان اور پاکستان میں آپریشنز کے لیے 978 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں پچھلے 18 سالوں میں ہونے والی تعمیر نو کی کوششوں میں خرچ ہونے والی تمام رقم کا تقریباً 16 فیصد یعنی 143.27 ارب ڈالر ادا کیا۔اور اس میں سے نصف سے زیادہ یعنی 88.32 ارب ڈالر افغان نیشنل آرمی اور پولیس فورس سمیت افغان سکیورٹی فورسز کی تیاری میں خرچ ہوا۔تعمیر نو کے نگراں ادارے کا کہنا تھا کہ گذشتہ 11 سالوں میں ‘ضیاع، دھوکہ دہی اور غلط استعمال’ پر تقریباً 19 ارب ڈالر ضائع ہوچکے ہیں۔جنگ کے آغاز سے اب تک امریکہ کے 2300فوجی ہلاک جبکہ 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ، 2014 میں اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز کے 45 ہزار سے زیادہ ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔نیٹو ممالک کے ایک ہزار 144 اہلکار ہلاک ہوئے ، 20 برسوں میں 444 امدادی کارکن اور 72 صحافی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد 42 ہزار 245 ہے۔ 51 ہزار 191 طالبان اور دیگر حکومت مخالف جنگجو ہلاک ہوئے۔امریکا نے فنڈز تک طالبان کی رسائی روکنے کے لیے اپنے بینکوں میں افغان حکومت کے 9 ارب 50 کروڑ ڈالر کی مالیت کے اکائونٹس منجمد کردیئے۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق محکمہ خزانہ کی سیکرٹری جینٹ ییلن اور محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول کے اہلکاروں نے امریکا میں موجود افغان حکومت کے اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت امری بینکوں میں افغان حکومت کے 9 9.5 بلین ڈالر کے اثاثہ جات منجمد کردیئے گئے۔ بائیڈن انتظامیہ طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے دیگر اقدامات پر بھی غور کر رہی ہے۔یورپی یونین نے طالبان کے ساتھ مشروط تعاون پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔برسلز میں پریس کانفرنس کے دوران یورپین ممالک کے نمائندہ خارجہ امور جوزف بوریل نے طالبان کے ساتھ مشروط تعاون پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان بنیادی انسانی اور خواتین کے حقوق کا احترام کرنے سمیت افغان سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے دیں تو یورپی یونین طالبان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔جوزف بوریل کا کہنا تھا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ ہم طالبان کو تسلیم کرنے جارہے ہیں تاہم خواتین کی حفاظت سمیت ہر چیز کے لیے طالبان سے بات کرنا پڑے گی۔افغان طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان کو آزاد کرانا سب افغانیوں کی خواہش اور حق تھا، کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں رکھیں گے اور امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے، افغانستان کی سرزمین کسی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ان خیالات کا اظہار طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سیاسی حل کے لیے مشاورت جاری ہے، تمام غیرملکی اداروں اور یہاں کام کرنے والوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا، غیرملکی سفارت خانوں کی بھرپور سیکیورٹی یقینی بنائیں گے، ہم کوئی داخلی اور خارجی دشمنی نہیں چاہتے، یہاں رہنے والے تمام غیرملکی باشندے مطمئن رہیں ان کی عزت، جان و مال محفوظ رہے گا۔طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر 20 برس بعد اپنے ملک افغانستان واپس لوٹ آئے جہاں انھیں نئی حکومت میں اہم ذمہ داری ملنے کا امکان ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان کے سیاسی ونگ کے سربراہ ملاعبدالغنی برادر قطر سے قندھار پہنچے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ طالبان جنگجوؤں کی بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھی۔جنگجوؤں نے اپنے لیڈر کی آمد کے جشن میں آتش بازی بھی کی جبکہ نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور امارت اسلامی زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر شہر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ رہی۔ ملاعبدالغنی برادر طالبان کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور عوام کو اعتماد میں لیں گے۔افغانستان میں طالبان نے خواتین سمیت تمام سرکاری ملازمین کیلئے عام معافی کا اعلان کردیا، طالبان نے سرکاری ملازمین سے کہا کہ کابل میں حالات معمول پر آرہے ہیں، کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں، تمام ملازمین معمول کی زندگی کا اعتماد کے ساتھ آغاز کریں اور کام پر واپس آ جائیں، انہیں ان کی تنخواہیں دی جائیں گی اور کچھ نہیں کہا جائے گا۔طالبان کی طرف سے سرکاری ملازمین کے نام پیغام میں کہا گیا کہ اپنے اداروں میں نئے سرے سے کام پر آئیں، تاہم اپنے خیالات کو 20 سال پہلے کے حالات کے مطابق بحال کریں، رشوت، غبن، تکبر، بدعنوانی، سستی کاہلی اور بے حسی سے بچیں، جو پچھلے 20 سال سے کسی وائرس کی طرح سرکاری اداروں میں پھیلی ہوئی ہے۔طالبان کی جانب سے پرامن رہنے کی یقین دہانی کے بعد کابل میں معمولاتِ زندگی بحال ہوگئے ہیں ، مارکیٹیں بھی کھل گئیں ،کابل کے بازاروں میں لوگوں کی خرید و فروخت جاری ہے اور دکانداروں نے صورتِ حال کو اطمینان بخش قرار دیا ہے تاہم لوگ بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہیں۔دوسری جانب افغانستان میں حکومت سازی کے لیے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے ، انس حقانی کی سربراہی میں طالبان کے وفد کی سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات ہوئی جبکہ انس حقانی کی سربراہ حزب اسلامی گل بدین حکمت یار سے بھی ملاقات ہوئی ،صدر جوبائیڈن نے برطانوی وزیراعطم بورس جانسن کے ساتھ ٹیلی فون پر افغان بحران پر تبادلہ خیال کیا ہے ، دونوں رہنمائوں نے اگلے ہفتے افغانستان کے بحران پر جی سیون کا ورچوئل سربراہ اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔