آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ روز ملاقاتیں کیں، ملاقاتوں میں خطے کی سلامتی پر تبادلہ خیال کیا گیا،سی پیک منصوبے کیلئے چین نے مکمل حمایت کا اظہار کیا،جنرل عاصم منیر نے کہا دہشتگردی کیخلاف افغانستان کی حمایت ضروری ہے،پر امن،مستحکم اور خوشحال افغان حکومت چاہتے ہیں،رابطے برقرار رکھیں گے،چینی وزیر خارجہ کن گینگ نے اپنا دو ٹوک موقف دیتے ہوئے کہا تنازع کشمیرپاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ طلب مسئلہ ہے،سہ فریقی مذاکرات میں پر امن افغانستان پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ہمسایہ ملک ہیں،اور دونوں ہی دہشت گردی سے متاثر ہیں،یہ دونوں ملک اس وقت تک ترقی نہیںکر سکتے،جب تک ان میں امن قائم نہیں ہوجاتا،امن ،ترقی،معاشی اور سماجی مسائل کے حل کیلئے سہ فریقی مذاکرات ہوئے ہیں، جن کے خاطر خواہ نتائج سامنے آنے کی اُمید ہے،ان مذاکرات میں چین نے نہ صرف کلیدی کردار ادا کیا بلکہ چائنہ نے افغانستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔درحقیقت افغانستان میں لامحدود معدنی ذخائر موجود ہیں،اسی بنا پر سویت یونین کے بعد امریکہ نے بھی للچائی نظروں سے افغانستان پر قبضہ جمایا ،ڈیزی کٹر بم برسائے مگروہ بھی وہاں پائوں نہ جما سکا،امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد اب وہاں پر طالبان نے حکومت سنبھال رکھی ہے، جس کے بعد افغانستان میں ماضی کی نسبت کافی امن قائم ہو چکا ہے، یہی وجہ کہ چین اب افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہو چکا ہے ،چینی کی سرمایہ کاری کے بعد نہ صرف پاکستان کیلئے وہاں حالات ساز گار ہوں گے بلکہ ایران ،سعودی عرب اور روس بھی وہاں پر سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں ،کیونکہ اس وقت چین کا سی پیک منصوبہ پوری آب وتاب کے ساتھ تکمیل کے مراحل کی طرف گامزن ہے ،چین نے سی پیک منصوبے کے تحت گوادر سے کاشغر تک 58 ارب ڈالرکا ریلوے لائن کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ پیش کردیا ہے۔ درحقیقت اس منصوبے کے ثمرات وسطی ریاستوں تک سی پیک کے ذریعے رابطہ قائم ہونے کے بعد ہی مل سکیں گے،وسطی ریاستوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان سے زمینی راستہ چاہئے ۔اسی بنا پر چینی وزیر خارجہ نے افغان وزیرخارجہ کے ساتھ ان امور پر بات چیت کی ہے، چند ہفتے قبل چینی کی کمپنی گوچین نے افغانستان کے لیتھیم ذخائر میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس میںایک لاکھ 20 ہزار تک افراد کو روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔افغانستان کی وزارت پٹرولیم نے اس پیشکش کا خیر مقدم تو کیا ہے لیکن ابھی تک چینی کمپنی کو کوئی جواب نہیں دیا ۔درحقیقت چین لیتھیم میں سرمایہ کاری کرکے دیگر معدنی ذخائر میں بھی سرمایہ کاری کرنے کا خواہاں ہے ۔لیتھیم کا استعمال بعض بغیر ری چارج ایبل بیٹریوں میں بھی کیا جاتا ہے جبکہ لیتھیم کو ایلومینیم اور میگزیم کے ساتھ ملا کر بلٹ پروف جیکٹ میں استعمال ہونے والی پلیٹ کی کوٹنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔افغانستان کے پاس لیتھیم ذخائر کتنے ہیں؟اس کے بارے میں درست اعدادو شمار تو موجود نہیں ہیں البتہ افغانستان کو لیتھیم کا سعودی عرب کہا گیا ہے۔ دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ میں اضافے سے لیتھیم کا استعمال بڑھ گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے لیتھیم میں چین نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان نے سہولت کاری کا کردار ادا کرتے ہوئے افغانستان اور چین کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے ،دہشت گردی سے متاثر افغانستان کے تعمیر نو کے لیے بھی اسے دوست ممالک کی اشد ضرورت ہے ،اسی بنا پر دہشتگردی اورسلامتی کے مشترکہ چیلنجز پر پاک ،چین اورافغان دفاعی و سکیورٹی تعاون بڑھانا ضروری ہے،خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم جزوہے۔چینی وزیر خارجہ کی آرمی چیف جنرل عاصم منیرکے ساتھ بھی ملاقات ہوئی ہے ،ملاقات میں چینی وزیرِ خارجہ کن گینگ نے سی پیک کی بر وقت تکمیل کیلئے چین کے عزم کا اعادہ کیا اور علاقائی امن و استحکام برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا،خطے میں سکیورٹی کی ابھرتی ہوئی صورتِ حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا،چینی وزیر خارجہ نے پاک چین دیرینہ سٹریٹجک تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سی پیک منصوبے کی پیش رفت پر اظہار اطمینان کیا۔فریقین نے پاک چین دیرینہ دوستی کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر پاکستان کیلئے چین کی غیر متزلزل حمایت کو سراہا۔ دہشتگردی اورسلامتی کے مشترکہ چیلنجز پر پاک ،چین اورافغان دفاعی و سکیورٹی تعاون بڑھانا ضروری ہے،افغان وزیر خارجہ امیرخان متقی نے بھی آرمی چیف سے ملاقات کی ،جس میں علاقائی استحکام اور خوشحالی کے فروغ کیلئے پاکستان کے ساتھ ملکرکام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ۔اس وقت پاکستان اور افغانستان کے لیے دہشتگردی اور انتہاپسندی کے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تعاون بڑھانا ضروری ہے،کیونکہ دونوں ملک ہی دہشت گردی سے متاثر ہیں ،اس ملاقات کے بعد امید قائم کی جا سکتی ہے کہ افغان طالبان قیادت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ،انھیں افغان سر زمین اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دیں گے ۔اگر ایسا ہو جاتا ہے ،تو اس سے دوطرفہ تعلقات میں مضبوطی آئے گی ۔اور مستقبل کے لیے حالات ساز گار ہوں گے ۔
٭٭٭