مسیلمہ کذاب نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا:-
” میرے ساتھ ایک معاہدہ کر لیں ، جب تک آپ حیات ظاہری میں ہیں ، آپ نبی ہیں – جب آپ کا وصال ہوجائے تو میں نبی”
یا یہ معاہدہ کر لیں کہ!! آدھے عرب کے آپ نبی آدھے عرب کا میں نبی” – – – معاذاللہ !!!
اسکے خط پر نبی ۖ نے جواب میں لکھا :-
“میں تو اللہ کا رسول ہوں جب کہ تو کذاب ہے – – جھوٹا ہے”-جب نبی پاک نے خط میں کذاب لکھا تو فرمانے لگے :- ” کون لے کے جائے گا یہ خط اس کذاب کے دربار میں” ۔۔ اب اسکے دربار میں جانا ہے حالات بڑے خطرناک ہیں ،اس کے آگے بھی بندے اور پیچھے بھی بندے ہیں جان کا خطرہ بھی ہے ، ایک صحابی تھے چھابڑی فروش، سر پر ٹوکرا رکھ کے مدینے کی گلیوں میں کجھوریں بیچتے تھے ،گیارہ بارہ بچوں کے باپ تھے جسمانی طور پر بھی کمزور تھے، کجھور کھا رہے تھے جلدی سے اٹھے ہاتھ کھڑا کر کے کہا :- ” حضور کسی اور کی ڈیوٹی نا لگائیے گا میں جاونگا” – – جب یہ الفاظ جلد بازی میں کہے تو ان کے منہ سے کجھور کے ٹکڑے مجلس میں بیٹھے صحابہ کے چہروں پر گرے ، ایک صحابی کہنے لگے:-
” اللہ کے بندے پہلے کھجور تو کھا لے” بڑی جلدی ہے تجھے بولنے کی ”
مسکرا کے کہنے لگے :- “اگر کھاتے کھاتے ڈیوٹی کسی اور کی لگ گی تو کیا کرونگا مجھے جلدی ہے”(اللہ اکبر) حضورۖ نے اپنا نیزہ دیا،گھوڑا دیااور فرمایا:- ” ذرا ڈٹ کے جانا اس کذاب کے گھر” وہ صحابی عقیدت سے نظریں جھکا کر کہنے لگے:-
” محبوب خدا ! آپ فکر ہی نا کریں” صحابہ کہتے ہیں وہ اس طرح نکلے جیسے کوئی جرنیل نکلتا ہے،انکا انداز ہی بدل گیا ان کے طور طریقے بدل گئے وہ یوں نکلے جیسے کوئی بڑا دلیر آدمی جاتا ہے ، وہ صحابی مسیلمہ کذاب کے دربار میں گے، وہاں ایک شحض جو بعد میں مسلمان ہوا وہ بتلاتا ہے:- ” وہ صحابی جن کا نام” حضرت حبیب بن زید ” تھا جب وہاں دربار میں پہنچے تو اپنا نیزہ زور سے دربار میں گاڑ دیا۔
مسلمہ ٹھٹک کے کہتا ہے:- ” کون ہو “؟ – – –
آپ غراتے ہوئے فرمانے لگے:_
” تجھے چہرہ دیکھ کے پتہ نہیں چلا کہ میں رسول اللہۖ کا نوکر ہوں، ہمارے تو چہرے بتاتے ہیں کہ نبیۖ والے ہیں ، تجھے پتہ نہیں چلا میں کون ہوں” ۔
مسلمہ کہنے لگا:- ” کیسے آئے ہو” ؟ – – –
بے نیازی سے فرمایا :- ” یہ تیرے خط کا جواب لے کے آیا ہوں” ۔ بادشاہوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خط خود نہیں پڑھتے تھے، ساتھ ایک بندہ کھڑا ہوتا تھا وہ خط پڑھتا تھا تو مسیلمہ نے خط اس کو دیا کہ ” پڑھو ” جب اس نے خط پڑھا تو اس میں یہ بھی لکھا تھا :- ” تو کذاب ہے” – – – یہ جملہ وہاں موجود سب نے سن لیا اکیلے میں ہوتا تو بات اور تھی ، وہ آگ بگولہ ہوگیا آنکھیں سرخ ہوگئیں سامنے حضرت حبیب بن زید تنے کھڑے تھے، غصے سے تلوار لے کے اٹھا اور کہنے لگا:-
” تیرے نبی نے مجھے” کذاب ” کہا ہے تیرا کیا خیال ہے”؟
حبیب بن زید مسکرا کے فرمانے لگے:- ” خیال والی بات ہی کوئی نہیں، جسے میرا نبی کذاب کہے وہ ہوتا ہی کذاب ہے تو سات سمندروں کا پانی بھی بہا دے تو بھی تیرا جھوٹ نہیں دھل سکتا” مسلمہ غصے کی شدت سے کانپتے ہوئے کہنے لگا :-
” تو پیچھے پلٹ کے دیکھ ، سارے میرے سپاہی میرے پہریدار، تلواریں , نیزے , خنجر , تیر سب تیرے پیچھے کھڑے میرے ماننے والے ہیں” ۔۔
حضرت حبیب بن زید فرمانے لگے:- ” میرے بارہ بچے ہیں ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو دودھ پیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جنہوں نے ابھی چلنا نہیں سیکھا ، میں جب رسول اللہۖ کا پیغام لے کے نکلا تھا تو میں نے پلٹ کے بچے نہیں دیکھے تو تیرے پہرہ دار کیسے دیکھ لوں ,جو جی میں آتا ہے کر غلامان محمدۖ جان دینے سے نہیں ڈرتے۔
مسیلمہ نے زور سے تلوار ماری بازو کٹ کے گر گیا کہنے لگا :-
” اب بول اب تیرا کیا خیال ہے؟
آپ فرمانے لگے:-
” تو بڑا بیوقوف ہے ہمیں آزماتا ہے، ہمیں تو بدر سے لے کر احد تک سب آزما چکے ہیں ، تو ابھی بھی خیال پوچھتا ہے، میرا خیال وہی ہے جو میرے نبیۖ نے فرمایا-
مسلمہ نے پھر تلوار ماری دوسرا ہاتھ کٹ گیاکہنے لگا:-
” میں تجھے قتل کر دوںگا باز آجا
آپ فرمانے لگے-
” تو بڑا نادان ہے ، ان کو ڈراتا ہے جو فجر کی نماز پڑھ کے پہلی دعا ہی شہادت کی مانگتے ہیں ، جو کرنا ہے کر لے” – –
مسلمہ کذاب نے تلوار گردن پر رکھی کہنے لگا-
” میں تیری گردن کاٹ دونگا ،
حبیب بن زید فرمانے لگے-
” کاٹتا کیوں نہیں” – – –
روایت کرنے والا فرماتا ہے مسیلمہ کے ہاتھ کانپتے تھے ، تلوار چلائی گردن کٹ گی ، ادھر مدینے میں حضورۖ کی انکھوں میں آنسو آئے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا :-
” یا رسول اللہ کیا ہوا ” – – –
فرمایا :-
“میرا حبیب شہید ہو گیا ہے اور رب کریم نے اس کے لے جنت کے سارے دروازے کھول دیئے ہیں” –
کی محمد ۖ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں