اسلام آباد/کراچی (پاکستان نیوز) پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تاریخی کمی اور آئی ایم ایف کی جانب سے بروقت قسط کی ادائیگی روکی گئی تو پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے، مرکزی بینک کے مطابق رواں ماہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے ترسیلات زر میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت پاکستان کو سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے، امپورٹ بل میں کمی اور ایکسپورٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول ملک میں بنانا ہو گا جس سے بیرونی سرمایہ ملک میں بڑھے اور سرمایہ کار بہتر انداز میں ملک میں کاروبار کر سکیں۔ چوبیس نومبر 2022 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 134 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت مرکزی بینک کے ذخائر 7 ارب 82 کروڑ جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 5 ارب 81 کروڑ ڈالر ہیں، جبکہ ملک کے مجموعی ذخائر 13 ارب 64 کروڑ ڈالر ہیں۔معاشی امور کے ماہر محمد سہیل نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا براہ راست اثر ملکی کرنسی پر پڑتا ہے، اس وقت ملک میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ دو چیزیں اب انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ ( آئی ایم ایف) کی جانب سے اگرپاکستان کو طے شدہ قسط مل جاتی ہے اور پھر دیگر ممالک بھی پاکستان کو پیسہ دے دیتے ہیں تو بہتری ممکن ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اس میں تاخیر ہوتی ہے تو پھر روپے پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا۔ کیونکہ پاکستان کے دوست ممالک سعودی عرب اور چین سے رقم ملنے کا معاملے بھی آئی ایم ایف سے منسلک ہیں۔محمد سہیل کا کہنا تھا کہ ابھی سکوک بانڈز کی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں،اس ادائیگی کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی واقع ہو گی۔معاشی ماہر سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکلات میں ضرور ہے لیکن ڈیفالٹ کی صورتحال نہیں ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد شمار باعث تشویش ہیں،’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جانب سے بھیجے گئے ترسیلات زر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ بل میں اضافہ بھی ملکی معیشت کے لیے اچھی نوید نہیں سناتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی کرنی ہو گی، ملکی معیشت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ درآمدی بل کو کم اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔سمیع اللہ طارق نے کہا کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کا فیصلہ موجودہ ملکی صورتحال میں بہتر نہیں ہے، اس سے سرمایہ کاری میں کمی ہو گی اور موجودہ حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔معاشی تجزیہ کار اور پاک کویت انویسمنٹ کمپنی کے سی ای او عبدالعظیم نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت پاکستان کی دیوالیہ ہونے کی صورتحال نہیں ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائز میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن اب بھی کئی ایسے شعبے ہیں، جہاں سے آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔عبدالعظیم نے کہا کہ پاکستان کو قرض سے زیادہ اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہو گا ،امپورٹ میں کمی کی جائے اور ایکسپورٹ میں اضافہ کیا جائے۔ یہ براہ راست ملک کے لیے بہتری ہے۔ قرض کی ادائیگی کے ساتھ اس پر سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ اگر ایکسپورٹر کو سہولت دی جائے تو جو ڈالر ملک میں آئیں وہ ملکی معیشت کے لیے بہتر اور دیر پہ فائدہ ہے۔ ڈیفالٹ دراصل کسی ملک کی قرضہ واپس کرنے کی صلاحیت کے ختم ہونے کو کہتے ہیں۔ پاکستان اَب تک 22مرتبہ آئی ایم ایف اور دوسرے بین لااقوامی امداد دینے والے اداروں سے قرض لے چکا ہے اور صرف دو مرتبہ کے علاوہ تمام معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے وقت پر قرض کی اقساط ادا کرتا رہا ہے صرف دو مرتبہ ایسا ہوا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنے سے معذوری ظاہر کی اور معاہدے کو درمیان میں چھوڑ کر نیا معاہدہ کر لیا۔ جس کی شرائط کچھ نرم اور پاکستان کی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت کے مطابق تھیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں مشکلات کے پیش نظر نیا معاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور اسے ڈیفالٹ نہیں کہا جا سکتا۔