زمانہ طالب علمی میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں سے قربت ملی جن جمہوری جدوجہد میں مسلم بھی شامل تھے۔ جب نیب کا سربراہ ولی خان ہوا کرتا تھا تو اکثر وبیشتر بحث ومباحثوں میں پختون قیادت کا موازنہ ہوا کرتا تھا کہ سابقہ نارتھ ویسٹ فرنیٹر صوبے میں باچا خان، ولی خان، اجمل خٹک، افراسیاب خٹک کا نام آیا کرتا تھا جبکہ اسی صوبے میں جنرل ایوب ان، جنرل یحیٰی خان، قیوم خاں، ایرمارشل، اصغر خان آباد تھے۔ جن کو پختون لوگ پختون یا پشتون تسلیم نہیں کیا کرتے تھے۔ جس کا کہنا تھا کہ جنرل ایوب خان ہندو کو جنرل یحیٰی خان ایرانی، ایرمارشل اصغر خان اور قیوم خاں کشمیری ہیں جو اپنے آپ کو پٹھان کہلاتے تھے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ پختون اور پٹھان میں فرق ہے پٹھان تو پورے برصغیر میں آباد ہیں جو اپنے آپ کو بنگالی پنجابی، سرائیکی، سندھی، کشمیری یاغزنوی غوری، لودھی، سوری، یا پھر علاقائی، دہلوی، رامپوری، حیدرآبادی، ہوشیار پوری، جالندری اور نہ جانے کون کون سے علاقوں میں پٹھان آباد ہیں جو اب وہاں کے باسی بن چکے ہیں وہ پٹھان ضرور ہیں مگر پختون نہیں ہیں۔ جن کے سابقہ قبائل کے نام غوری، غزنوی، سوری، آفریدی، نیازی وغیرہ لکھے اور پڑھے جاتے ہیں مگر وہ اپنے آپ کو پختون یا پشتون نہیں کہتے ہیں کیونکہ ان کی مادری زبانیں پشتونیں ہے۔ پشتو زبان صرف اور صرف پختون خواہ صوبے میں بولی اور لکھی جاتی ہے۔ چونکہ ماضی میں حملہ آوری سے برصغیر کے لوگ ایک دوسرے علاقوں میں آباد ہوتے رہے ہیں جو حملہ آوروں کے ساتھ آتے جاتے تھے جو اب اپنے اپنے علاقوں کے باسی بن کر وہاں کے وفادار شہری بن چکے ہیں۔ جس طرح ماضی میں پٹھان حملہ آوروں کی وجہ سے پٹھان برصغیر میں آباد ہوئے۔ یا پھر رنجیت سنگھ کی وجہ سے پنجابی پختونخواہ میں آباد ہوئے جن کی زبان اب ہندو کو کہلاتی ہے۔ مجوزہ تمہید کا مطلب ومقصد صرف یہ ہے کہ وہ پختون جو باپا خان، ولی خان، اجمل خٹک کو اپنی قیادت مانتے تھے انہوں نے ایک عمران لاہوری کو حکمران پشوری کسے مان لیا جو شاید رنجیت سنگھ کے بعد پہلا کر پشاور کا حکمران بنا ہے۔ جو غیر پختون ہے جن کے آبائو اجداد کا تعلق جالندھر اور میانوالی سے ہے جو ایک لفظ پشتو کا بول نہیں سکتا ہے۔ جن کی پیدائش پرورش تربیت، تعلیم لاہور میں ہوئی مگر وہ حکمران پختون خواہ کا بنا ہے۔ جو ایک معجزہ ہے کہ ایک غیر پختون یا پشتون شخص عمران خان گزشتہ دس سال سے حکمران بنا ہوا ہے۔ جو ایک اچبنے سے کم نہیں ہے۔ ظاہر ہے ماضی میں پختونوں نے کبھی کسی غیر پختون کو اپنا لیڈر تسلیم نہیں کیا ہے اس لئے سوالات اٹھتے ہیں کہ آخر کار وہ ایک عوامل تھے کے عمران لاہوری حکمران پشوری بنا دیا گیا جوکہ اپنے پیدائشی اور آبائی علاقے لاہور سے منتخب نہ ہوپائے تھے۔ ظاہر عمران خان کی پاپولرٹی بیان کی جارہی ہے۔ کہ وہ کرکٹ کا کھلاڑی تھا۔1992ء کے ورلڈ کپ کا فاتح تھا وغیرہ وغیر یہ جانتے ہوئے1992سے پہلے کرکٹ کھیل کا اتنا شوروغل نہ تھا جو ایک امرا کلاس کے بچوں کا مہنگا ترین کھیل تھا جس میں نوے فیصد آبادی کرکٹ کھیل سے ناواقف تھی۔ جو آج بھی اکثریت اسی فرنگی کھیل سے انجان ہے جس کو1992کے بعد پاکستان کے قومی کھیلوں پر ترجیح دی گئی ہے۔ کہ آج قومی کھیل ہاکی ختم ہوچکا ہے جبکہ علاقائی کھیل بھی کرکٹ کی وجہ سے زوال پذیر ہوچکے ہیں ہرطرف بلاص بلانظر آتا ہے جس کا راز صرف یہ ہے کہ برصغیر ابھی تک انگریزوں کا ذہنی جسمانی اور روحانی طور پر غلام تھے جس میں پاکستان سرفہرست ہے۔ جو عہد فرنگی کے غلامانہ ذہن کی نشانی ہے کہ برصغیر میں کرکٹ کا دور دورہ ہے جن کے اپنے صدیوں پرانے کھیل دفن ہوچکے ہیں جنہوں نے امریکی عوام کی طرح مکمل آزادی حاصل نہ کی ہے یہی وجوہات ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کے کھلاڑی کو سکیورٹی بنا دیا گیا ہے جو نہ جانے کونسے کونسے اسیکنڈلوں میں ملوث پایا جاتا ہے۔ تاہم عمران لاہوری حکمران پشوری موجودہ صدی کا معجزہ ہے کے پختونوں کا لیڈ پر ہے جو رنجیت سنگھ کے بعد دوسرا پنجابی لیڈر ہے جو پختونوں کا حکمران بنا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پختون قوم اپنی پختون قیادت محروم ہوچکی ہے۔ کہ جن کا لیڈر آج پنجابی لاہوری عمران خان ہے جو کہلاتا پٹھان مگر پختون نہیں ہے۔ بہرحال عمران خان کو پختونوں پر کیسے اور کیوں مسلط کیا گیا ہے جس کے پیچھے کئی عوامل ہیں کہ آج پختونوں کے نوجوان بچے اپنی روایات اور کلچر کے خلاف کام کر رہے ہیں جس میں پاکستان کو ایجنیسوں کا بہتر بڑا کردار ہے جو پختونوں کی نسلوں کو بدل رہی ہیں نوجوانوں کو ورغلایا جارہا ہے۔ جن کے اندر فتنہ اور فساد پیدا کیا جارہا ہے جس کا مظاہرہ کل مردان میں ہوا ہے کہ عمران خان کو حسب عادات کسی نے پیغمبر کہا تو لوگوں نے اس شخص کو قتل کردیا ہے چونکہ عمران خان ایک کلٹ بن چکا ہے جو کوئی بھی غیر اسلامی اصطلاح استعمال کرکے عوام کو گمراہ کرسکتا ہے جس سے بچا جائے۔
٭٭٭٭