زرد صحافت زہر ہے!!!

0
48
جاوید رانا

الحمد اللہ، یہ خاکسار فریضۂ عمرہ کی سعادت کے حصول کے بعد پاکستان پہنچ گیا ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ کریم میری حاضری کو قبول فرمائے، آمین۔ ارادہ یہی ہے کہ یہاں 8 فروری کے مجوزہ الیکشنز کی مہم اور انعقاد کی بالذات کوریج اور تجزیہ کر کے اپنے قارئین تک پہنچاتا رہوں، مجوزہ کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ لاہور اور فیصل آباد میں بالخصوص اور پنجاب میں بالعموم الیکشن کی کوئی گہما گہمی ابھی تک نظر نہیں آرہی ہے۔ الیکشن میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن نہ کوئی جلسہ، ریلیاں، ڈور ٹو ڈور کمپین نظر آرہی ہے نہ ہی امیدواروں کی کوئی رابطہ کی صورت نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی یقین نہیں کہ 8 فروری کو الیکشن ہو جائینگے۔ البتہ پاکستان آنے سے قبل گزشتہ ہفتہ جب اپنے اخبار (پاکستان نیوز) کا جائزہ لیا تو اخبار کے ایک کالم نگار کامل احمر کے بے سروپا اور غیر حقیقی کالم ”ہدایت نامہ برائے پاکستانی کونصلیٹ جنرلز” نے شدید رد عمل سے دوچار کیا۔ موصوف نے اپنے کالم میں بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے امریکہ میں پاکستانی قونصل خانوں کو ویزا کے ایشو پر ہدف تنقید بنایا۔ پاکستان نیوز کے سربراہ و صدر اور تمام بیورو چیف اس پالیسی اور موٹو پر یقین رکھتے اور عمل کرتے ہیں کہ اخبار کا مواد بشمول خبریں، اداریہ، کالم حقائق و تصدیق پر مبنی ہو اور معیار کسی بھی طرح زرد صحافت کے زمرے میں نہ آئے، نہ ہی قارئین کا اعتبار متاثر ہونے پائے۔ مذکورہ کالم نگار نے اپنے کالم میں کیلیفورنیا، شکاگو، نیویارک، بوسٹن، ہیوسٹن کے قونصلرز کو ہدف بنایا ہے۔ شکاگو کا بیورو چیف اور مدیر ہوتے ہوئے میں کامل احمر صاحب کے شکاگو کے قونصل جنرل پر لگائے ہوئے تمام الزامات کی پُرزور مذمت کرتا ہوںَ موصوف کے شکاگو کے قونصل خانے کے بارے میں علم و آگاہی کے بارے میں اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ انہیں قونصل جنرل کے نام کا بھی صحیح علم نہیں، یہی نہیں کامل احمر نے ہیوسٹن کے جن قونصل جنرل ابرار حسن پر تہمت طرازی کی انہیں ہیوسٹن سے ٹرانسفر ہوئے 6 ماہ گزر چکے ہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ مفروضات پر کالم نگاری زرد صحافت ہی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک قونصل جنرل شکاگو طارق کریم کا تعلق ہے وہ ڈھائی سال سے یہاں متعین ہیں اور شکاگو مڈ ویسٹ کے عوام سے تعلقات و خدمات کے حوالے سے مثالی حیثیت کے نہ صرف حامل ہیں بلکہ ریاستی، شہری و کائونٹی انتظامیہ اور کاروباری و سماجی حلقوں میں بھی پاکستانی و امریکی تعلقات، معاشی، علمی و معاشرتی رابطوں اور ترقی و خوشحالی میں سرگرم عمل ہیں۔ جہاں تک کالم نگار موصوف کے ویزہ ایشوز کا الزام ہے، میں اس حقیقت کا شاہد ہوں کہ آن لائن درخواست ویزہ جاری کرنے کے عمل میں کبھی التواء نہیں ہوا بلکہ قونصلیٹ اور قونصل جنرل نے سائل کو درپیش ایمر جنسی کی صورت میں تعطیل کے روز اور رات 12 بجے بھی ویزا جاری کیا گیا ہے۔ اگر کالم نگار موصوف کی شکایت میں کوئی صداقت تھی تو وہ درخواست گزار کا نام ظاہر کرتے، میں دعوت دیتا ہوں کہ متعلقہ فرد مجھ سے رابطہ کر کے ویزہ کے حصول میں مدد حاصل کر سکتا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی واضح ہو جائے۔ میرا کامل احمر صاحب کو مشورہ ہے کہ کوا کان لے گیا سُن کر کوے کے پیچھے نہ بھاگا کریں بلکہ کان کو چُھو کر دیکھ لیا کریں۔ صحافت کی خوبی یہی ہے کہ تحقیق و تصدیق کے بعد تحریر ظہور میں آئے۔
اب تھوڑا اظہار پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بھی ہو جائے۔ سائفر کیس میں سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیان میں تبدیلی اور ایف آئی اے و مجسٹریٹ کو دیئے گئے بیانات حلف پر نہ اُٹھانے کا اظہار عمران خان کیلئے ریلیف کا راستہ نظر آرہا ہے، توشۂ خانہ کیس کے جج محمد بشیر کا خرابیٔ طبیعت کے سبب ریٹائرمنٹ تک چھٹی لینے کا فیصلہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے خطاب میں جرم ثابت نہ ہونے تک ملزم کو بے گناہ قرار دینے کا اشارہ، اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود عمران اور پی ٹی آئی کو سیاسی و انتخابی پراسس سے آئوٹ کرنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اُدھر شریفوں کو انتخابی مہم میں مشکلات، آئی پی پی سے انتخابی اتحاد کے باعث ن لیگ میں دراڑیں اور بعض لیگی امیدواروں کا آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ، بلاول کا لاہور میں پی اے ٹی کی حمایت سے جلسہ اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت، اس سوچ کو تقویت دیتے ہیں کہ ن لیگ کے لئے اقتدار مشکل ہی نہیں غالباً ناممکن ہی ہوتا جا رہا ہے اور فیصلہ ساز اس شد و مد میں ہیں کہ الیکشن کرائے جائیں یا التواء کی کہانی پر عمل کیا جائے۔ عمران خان کے ورچوئل جلسوں، بیرونی چینلز کو انٹرویوز اور بغیر انتخابی نشان بلا بھی عوام کی حمایت کے سبب نہ صرف فیصلہ ساز گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں بلکہ سیاسی حریف بھی پریشان ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایران پاکستان تنازعہ کو بنیاد بنا کر حالات دوسرا رُخ اختیار کر لیں اور عوام اپنے حق رائے دہی سے ہی محروم ہو جائیں۔ زرد صحافت اور وقت کے دھارے کیساتھ چلنے والا میڈیا بھی انتخابی پراسس کیخلاف بھونپو بنا ہوا ہے۔ اللہ خیر کرے اور وہ ہو جو پاکستان کے حق میں ہو۔
دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی اُلفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here