محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج آپ کو جادو کی عالمی تاریخ اور پراسرار حقائق کی ایک دلچسپ تحریر جو مغربی قصوں سے بھرپور ہے ،اردو میں چھلاوہ اسے کہتے ہیں جوچور غائب ہوجاتے تھے بدن چھوکر ایسے ہی انگریزی ایلف !۔ایلف ایک ایسی چھوٹی سی مخلوق تھی جس کے بارے میں تصور تھا کہ وہ پہاڑیوں میں رہتی ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی مانا جاتا تھا کہ وہ انسانوں ہی کی طرح عقل کی حامل ہے اور مکینیکل فنون میں ماہر ہے۔ایڈا نامی کتاب میں لکھا ہے کہ روشنی کی ایلفیں افلاک پر رہتی ہیں جبکہ تاریکی کی ایلفیں زمین کے نیچے رہتی ہیں۔تمام ٹیوٹانی اقوام ایسے عقائد کی حامل تھیں اور بہادری کے رومانوی قصے ان سے بھرے پڑے ہیں۔ جرمنی کے کچھ علاقوں کے دیہاتیوں کا عقیدہ تھا کہ جو لوگ پشت کے بل ہوئے ہوتے ہیں پیلیں ان پر لیٹ جاتی ہیں اور سونے والوں کو ڈرانے خواب نظر آتیہیں ۔ طویل عرصے تک ڈرانے خوابوں کے حوالے سے یہ عقیدہ موجود رہا ہے کہ بری روحیں ان کا باعث ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان بری روحوں کو بھگانے کے لیے بستر کے اوپر گھوڑے کی نعل لٹکائی جاتی تھی۔ئی لوئر کہتا ہے کہ “شناسا رومیں ایسی روحیں ہوتی تھیں جو کہ بیان کردہ اوقات پرآیا کرتی تھیں ۔ وہ اپنی پسند کی شکلیں اپنا کر آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھیں اور ان سے گفتگو کی جاسکتی تھی ۔ یونانی انہیں پیریڈ رائی کہتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اس قسم کی ایک روح سقراط کی خادمہ تھی۔ سرٹوریٹس کا دعوی تھاکہ ایک روح اس کے احکامات کی تابع ہے۔ اس کے بقول ڈیانا نے اسے ہرن کے سفید رنگ کے بچے کی صورت میں عطا کیا تھا اور وہ ڈیانا کے پیغامات اس تک پہنچاتا تھا۔ سکاٹ لینڈ کے باشندے سکالش برانی کو قدیم لوگوں کی شناسا رومیں تصور کرتے تھے۔ برانی کی خصوصیت دی تھی وہ جو بھی کام کرتی تھی اس کا معاوضہ نہیں لیتی تھی ۔ کوٹیلیٹس ایگر پا کے ساتھ ہمیشہ رہنے والا سیاہ کتا بھی اسی قسم کی شناسا روح مانا جاتا تھا۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ شناساروحوں کو شبیہوں اور انگوٹھیوں میں بند یا قید کیا جا سکتا ہے۔ سلاما نکا اور ٹولیڈو اور اٹلی کیجادوگر اس میں مہارت رکھتے تھے35 کہتا ہے: ہر جادوگر اور جادوگرنی کے پاس ایک شناسا روح ہوتی ہیجو کہ ان کی مددگار ہوتی ہے۔ یہ روح کتے یا بلی کی صورت میں بعض اوقات ظاہر بھی ہوجاتی ہے… اس قسم کی روحوں کو انگوٹھیوں صندوقوں اور تابوتوں میں رکھا جا تا ہے۔فلوسٹریٹس کہتا ہے : ” اپولیس ٹائیٹس کے ساتھ ہمیشہ ایک شناسا روح رہتی تھی اور جو ہا نیز جوڈوکس روزا جو کہ کورٹاسینسیا کا باشندہ تھا۔ ہر پانچویں دن شناسا روح کے ساتھ مشاورت کرتا تھا۔ یہ روح اس کی انگوٹھی میں بندتھی ۔ وہ اسے اپنی مشیر اور رہنما تصور کرتا تھااور مختلف معاملات میں اس سے ہدایت لیتا تھا ….. اس روح نے اسے تمام دکھ درد اوربیماریوں کا علاج بتا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ ایک عالم اور بے مثال معالج کی حیثیت سیمشہور ہو گیا۔ بالآخر آ رٹہ گلڈر لینڈ میں اس پر جادو ٹونا کرنے کا الزام عائد کر کے اسے علاج معالجے سے روک دیا گیا جبکہ اس کی انگوٹھی کو بھرے بازار میں ایک پتھر پر رکھ کر ہتھوڑے کی ضرب سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ۔پیراسیلس کے حوالے سے یہ یقین کیا جاتا تھا کہ اس کے ساتھ بھی ایک شناساروح رہتی ہے جو کہ اس کی تلوار کے دستے میں جڑے ایک پتھر میں بند ہے۔ وہ اپنی تلوار بھی زمین پر نہیں رکھتا تھا بلکہ ہمیشہ بستر میں اپنے ساتھ رکھتا تھا(یاد رہے مایہ ناز عالمی بلے باز سچن تندولکر بھی اپنا بلا ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے گود میں وہ روحانی گرو ساء بابا کے آشرم باقاعدگی سے جاتے تھے )وہ اکثر آدھی رات کو اٹھ جاتااور اس سے فرش پر ضر میں لگانے لگتا۔جادوگر نیوں کی شناسا روح کالی بلی یا بڑے مینڈک کی شکل میں ہر وقت ان کے پیچھے پھرتی رہتی تھی۔ یہ جانور اس کی کرسی پر بیٹھ جاتے اور جادوگر نیاں ان سے گفتگو کیاکرتی تھیں ۔ بٹلر “HUDIBRAS” کے درج ذیل مصرعوں میں شناسا روحوں کا ذکر یوں کرتا ہے:
Bombastus kept a devil’s bird
Shut in the pummel of his sword,
That taught him all the cunning pranks
Of past and future mountbanks.
Kelly did all his feats upon.
The devil’s looking-glass, a stone,
Where, playing with him at bo-peep,
He solv’d all problems ne’er so deep:
Agrippa kept a stygian pug,
I’ th’, grab and habit of a dog,
That was his tutor, and the cur
Read to th’ occult philosopher.”
کیلٹک اقوام کی کہانیوں میں بنٹی نامی ایک مافوق الفطرت ہستی کا ذکر کثرت سے آتا ہے۔ یہ خبردار کرنے والی روح تھی جو کہ کچھ خاص خاندانوں اور قبیلوں کو آنے والیخطرات سے آگاہ کیا کرتی تھی ۔ عمومی عقیدہ یہ تھا کہ یہ رومیں عورتوں کی ہوتی ہیں جن کی تقدیر میں کسی اتفاق کے تحت ان خاندانوں سے منسلک ہوگئی ہیں جن کو وہ خطروں سے خبردارکرتی ہیں۔ بعض اوقات یہ روح نوجوان عورت کی ہوتی تاہم اکثر اوقات وہ بہت بوڑھی ہوتی تھی، جس کے لیے لیے بال اس کے شانوں پر بکھرے رہتے تھے۔ کہا جا تا تھا کہ دوسفیدڈھیلا ڈھالا لباس پہنے ہوتی ہے اور اس کا فرض تھا کہ وہ متعلقہ خاندان کو آنے والی اموات یاسانحات سے خبردار کر ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ہوا کی آواز جیسی آواز نکالتی تھی، تاہم اس کی آواز انسانی صدا سے مشابہہ ہوتی تھی۔ یہ آواز بہت فاصلے تک سنی جاسکتی تھی۔ وہ بھی کبھار ہی دکھائی دیتی تھی اور وہ بھی انہی لوگوں کو جن سے کہ اس کا تعلق ہوتا تھا۔بہت سی پرانی آئرش ہیلیڈ نظموں میں بنٹی کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر
درج ذیل مصرعوں میں:
‘Twas the banshee’s lonely wailing,
Well I knew the voice of death,
In the night wind slowly sailing
O’er the bleadk and gloomy heath.”
آئر لینڈ کے بہت سے قدیم خاندان اپنی بھی رکھتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ بعض خاندانوں میں تو آج بھی کسی قریبی رشتے دار کی موت سے پہلے وہ نمودار ہوتی ہے۔خبردار کرنے والی روح صرف آئرلینڈ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اٹلی اور جونی میں بھی ایسی ہی خبر دار کرنے والی رو میں بہت سے خاندانوں میں موجود ہیں۔ سکاٹ نے سکاٹ لینڈ کے حوالے سے اس کی متعدد مثالیں درج کی ہیں۔ وہ کہتاہے کہ غلوشکورم کے خاندان میں ایک نسوانی روح موجودتھی جس کا بایاں بازو اور ہاتھ بالوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لوش میان کے نزدیک واقع سپیڈ لنز قلعہ بھی آسیب زدہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں موجود بھوت ایک قیدی کا تھا جسے وہاں ایک زمین دوز کوٹھڑی میں قید کردیا گیا تھا اور وہ بھوک کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر گیا تھا۔ اس بھوت کی آمد ورفت اتنی زیادہ ہوگئی تھی کہ اسے بھگانے کے لیے ایک پادری بلوانا پڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پادریایک قدیم انجیل پڑھنے لگا اور چوبیس گھنٹے بعد وہ بھوت کو قلعے کے ایک حصے تک محدود کرنیمیں کامیاب ہوا تاہم اس کی نہیں اور آ ئیں تب بھی سنی جاسکتی تھیں ۔ پادری نے وہ قدیم انجیل اس قلعے میں رکھ دی تاکہ اس کے اثر سے بھوت باہر نہ نکل سکے۔ ایک مرتبہ اس قدیم انجیل کی جلد دوبارہ بندھوانے کے لیے لے جایا گیا تو بھوت پھر سے نمودار ہونے لگا۔ آخرانجیل کو قلعے میں واپس لایا گیا تو بھوت سے چھٹکارا مل سکا۔
کہا جاتا ہے کہ جن ایک ایسی غیر مر کی مخلوق ہوتی ہے جو کسی فرد کے ساتھ پیدائشی طور پر ہوتی ہے تا ہم اس کا تذکرہ مغربی اقوام کی نسبت مشرقی اقوام کی کہانیوں میں کثرت سے آتا ہے۔ وہ پست درجے کی تلوق ہوتے تھے اور مردوں کے رفیق ہوتے تھے۔ وہ مردان سیاچھے یا برے کام لیا کرتے تھے ۔ کیونکہ مشرق کے جن اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ۔عربوں کے جن فارس والوں کے جنوں سے مختلف ہوتے تھے۔ الف لیلہ کے جن ہندوستانی قصوں کے دیو ہیں جنہیں فارس والوں نے اپنے رومانوی قصوں کے لیے مستعار لے لیا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ جن ہندو دیو مالا کے دیو یا دیوتاں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ عربوں کے بیان کے مطابق جن مجسم ہستیاں تھے ۔ وہ بعض اوقات حیوانی شکل وصورت کے حامل دکھائیگئے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ وہ انسانی صورت اختیار کر سکتے ہیں اور کسی جگہ سے غائب ہو کر دوسری جگہ ظاہر ہونے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ ان کے حوالے سے عقیدہ تھا کہ وہ زمین کے نیچے رہتیہیں اور زمین پر برے اثرات ڈال سکتے ہیں ۔ ان کے شر سے بچنے کے لیے شادی شدہ مرد تازہ ہل چلے ہوئے کھیتوں میں کسی جانور کا خون چڑ کا کرتا تھا۔
فارس کا دیو مغرب کے ازمنہ وسطی کے شیطان سے کافی مشابہت رکھتا ہے اور وہ نر اور مادہ ہر دو اصناف کے حامل ہوتے تھے۔ فارس والوں کی روایت کے مطابق نر دیو آدم کی پیدائش سے سات ہزار سال پہلے سے دنیا پر حکمران تھے۔ ان کے بارے میں عقیدہ تھاکہ وہ مختلف صورتیں اختیار کر سکتے ہیں بالخصوص سانپ کی اور قدیم فاری رومانوی قصوں کی تصویروں میں انہیں سانپ کے روپ ہی میں دکھایا گیا ہے۔
ہندوں کے دیوں یا دائیوروں کے بارے میں کہا جا تا تھا کہ وہ جس دنیا میں رہتے ہیں اس کا نام دائیور ہے۔ ہندو رومانوی قصوں میں انہیں عفریتوں سے جنگ لڑتیہوئے دکھایا گیا ہے۔ انہیں لاتعداد درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
قیاس کیا جاتا ہے کہ لفظ “Devil” فارسی کے لفظ “Div” سے بنایا گیا تھا۔ اسکے مترادف عبرانی لفظ کے معنی بالوں والا کے لیے جاتے تھے اور بکریوں پر اس کا اطلاق ہوتا تھا۔
پرخورست کہتا ہے : یہ امر غیریقینی نہیں ہے کہ عیسائیوں نے دم، سینگوں اورگھروں والے بکری نما شیطان کا تصور پان (PAN) سے اخذ کیا ہو۔سرتاس بران تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے : ربیوں کا عقیدہ تھا کہ شیطان اکثر و بیشتر بکری کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ چنانچہ بکری کو گناہ کے کفارے نیز آخری حساب کتاب کے موقع پر گناہگاروں کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔
ازمنہ وسطی میں مشرقی اقوام نے شیطان (Devil) کی جو تصویر میں بنائی تھیں ان میں اسے سینگوں اور دم کے ساتھ دکھایا گیا ہے جبکہ اس کا مسخ شدہ سر اور چہرہ جسم کے خاص حصوں پر دکھایا گیا ہے۔ زمین تصویروں میں اسے سیاہی مائل سرخ یا بھورے اور سیاہ رنگوں سے بنایا گیا ہے جبکہ Satan کی تصویر سبز رنگ سے بنائی گئی ہے۔ بعد کے زمانوں میں اسیسیاہ بلی کے روپ میں دکھایا گیا ہے۔ تاہم جادوگر نیوں کی تقریبات کے موقع پر اسے عمومابکرے یا مینڈھے کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔انکو بس ایک ایسی روح تھی جس سے ڈرانے خواب منسوب کیے جاتے تھے ۔اس کے حوالے سے عقیدہ تھا کہ وہ رات کی تاریکی میں ہونے والوں پر آ جاتی ہے اور اسے دہشت ناک خواب دکھاتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک متعلقہ شخص اسیجھٹک کر دور نہ کر دے. کیسلر کہتا ہے کہ لفظ Nachmar کو Mair سے اخذ کیا گیا ہے جو کہ بوڑھی عورت کے لیے استعمال ہوتا ہے کیونکہ روح سینے پر چڑھ بیٹھتی تھی اور پھیپھڑوں کو دبا کرسانس روک دیتی تھی ۔ انگریزی اور ڈچ زبانوں میں جرمن لفظ ہی اپنا لیا گیا تھا تاہم سویڈن کے لوگ صرف MARA کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ کچھ ملکوں میں یہ روایت موجود ہے کہ ڈرانے خوابوں کا باعث ایک عورت بنتی ہے جو نہ صرف مردوں پر بلکہ گھوڑوں پر بھی سواری کی عادی ہے۔ دیہاتی لوگ اسے اصطبل سے دور رکھنے کے لیے اصطبل کے دروازے پر والپرکس نائٹ کو مقدس چاک سے مقدس عبارتیں لکھتے تھے۔ اس مقصد کے لیے گھوڑے کی نعل بھی استعمال کی جاتی تھی اور موجودہ زمانے میں بھی برطانیہ کے بعض حصوں میں ڈرا نے خوابوں سے تحفظ کے لیے بستر کے اوپر ایک بھی ہوئی نعمل لٹکا دی جاتی ہے۔ایک پرانا لکھاری لکھتا ہے کہ انکیہ ہائی اور سکیو ہائی ایسی بدارواح ہیں جو ڈرا نیخواب دکھانے کے لیے بعض اوقات مردوں اور بعض اوقات عورتوں کی صورت شکل اختیارکر لیتی ہیں اور بہت خوفناک کام کرتی ہیں۔ سینٹ آگسٹین نے کہا تھا کہ ساطیر اور فان انکے بانی تھے ۔ لفظ انگلی بس کو آج بھی استعمال کیا جا تا ہے۔ ان دنوں اس کا مطلب ہے ایسابوجھ جسے اتار پھینکنا مشکل ہو۔ویمپائروں نے صدیوں تک انسانوں کے تخیل کی آگ کو بھڑکایا ہے ۔ اس حقیقت نے بھی ان کی موجودگی کے امکان کو تقویت دی کہ بعض جانور انسان کا خون چوسنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ قدیم ادیبوں نے دیمپائروں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ایسے اشخاص ہیں جوراتوں میں اپنی قبروں سے نکلتے ہیں اور زندہ انسانوں کا خون پی کر اپنی قبروں میں واپس آجاتے ہیں ۔ اس عقیدے کو اس حقیقت نے پتگی عطا کی کہ بعض مرنے والوں کیلواحقین متعلقہ شخص کی موت کے کچھ دنوں بعد کمزور اور پہلے ہو جاتے ہیں ۔ہنگری بالخصوص ویمپائرازم کی کہانیوں کا گڑھ رہا ہے اور ان کی خوفناک حرکتوں پرمبنی عجیب و غریب کہانیوں کے لیے مختلف نظریات گھڑے گئے تھے ۔۔ ماضی میں ایسا بھی ہوتارہا ہے کہ کسی شخص کی لاش پر شبہ ہو جا تا کہ وہ ویمپائر ہے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئیجاتے اور اگر تازہ خون نکلتا تو الزام کو درست قرار دے دیا جا تا۔۔ ویمپائر کو اس کی حرکتوں سے روکنے کے لیے لاش کے دل میں نوکدار سلاخ ٹھونک دی جاتی اور پھر اسے جلا دیا جاتا ۔بعض مقامات پر اس دہشت انگیز مخلوق کے خلاف عدالتی کارروائی ہوتی اور قبروں سے نکالی گئیں لاشوں کا معائنہ کر کے ان کے خون آشام ہونے کا اندازہ لگایا جا تا۔ اس سلسلیمیں اعضا کی پک داری اور خون کے بہا کو خاص طور پر ثبوت مانا جاتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ ذہین افراد میں سوچنے لگے کہ نام نہاد ویمپائر دراصل ایسے اشخاص ہوتے ہیں جنہیں قبروں میں زندہ دفنا دیا گیا ہوتا ہے۔ ویمپائروں سیمتعلق ایک کہانی سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ کہانی “1738 Letters Juives” میں موجود
ہے اور اس پر عینی شاہدوں کی حیثیت سے بادشاہ کے محافظوں کے دو افسروں کے دستخط ثبت
ہیں۔ کہانی درج ذیل ہے:
” سی ستمبر 1738 کے آغاز کی بات ہے کہ ایک 62 سالہ آدی گریڈٹر کے نزدیک کسیلو وابستی میں فوت ہو گیا۔ دفنائے جانے کے تین دن بعد وہ رات کے وقت اپنے بیٹے کے سامنے نمودار ہوا اور کھانے کو کچھ مانگا۔ بیٹے نے اسے کھانا دے دیا اور وہ اسے لے کر غائب ہوگیا۔
بیٹے نے اگلے دن پڑوسیوں کو سارا ماجرا سنایا۔ ایک رات چھوڑ کر اگلی رات باپ پھر نمودار ہوا اور اس نے بیٹے سے دوبارہ کھانا مانگا۔ اگلی رات بیٹا اپنے بستر میں مردہ پایا گیا۔ چند ہی دنوں میں بستی کے کچھ لوگ پیار رہ کر مر گئے ۔ بلغراد میں عدالت کو درخواست دی گئی ۔ وہاں سے تین افراد کوتفتیش کے لیے بہتی میں بھیجا گیا۔انہوں نے چھ ہفتوں کے دوران مرنے والوں کی قبروں کو کھدوایا۔جب انہوں نے بوڑھے آدمی کی قبر کھدوائی تو دیکھا کہ اس کی لاش کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور اس کا سانس قدرتی طریقے سے جاری
تھا۔ اس پر انہوں نے فیصلہ دیا کہ وہ ویمپائر ہے۔ ان تینوں میں سیدو افسر اور ایک ملا تھا۔ جلاد نے افسروں کے حکم پرعمل کرتے ہوئیبوڑھے کی لاش کے دل میں لو ہے کی نوک دار سلاخ ٹھونک دی اوراس کے بعد لاش کو جلا کر راکھ بنا دیا گیا۔لاہے اس بستی میں ہونے والے ایک واقعے کے حوالے سے جو کہانی ملتی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ایک کسان نے ایک ایمپائر کو پکڑا۔ وہ کسان چرچ کے مینار پر چڑھ کر پہرا دے رہا تھا۔ اس نے دیمپائر کے سر پر زور دار ضرب مار کر اسے زمین پر گرایا اور پھر کلہاڑی سے اس کا سر قلم کر دیا۔
ویمپائروں کی کہانیاں اس قسم کی ہوتی تھیں اور ان کے وجود پر اٹھارہویں صدی تک یقین کیا جاتا تھا۔ ٹورنفورٹ 1717 میں بیان کرتا ہے کہ آر پی پیلیگو میں جزائر کیباشندوں کو دیمپائروں پر پختہ یقین تھا۔ یونانی چر چ جن عیسائیوں سے قطع تعلق کر لیتا ہے وہ اپنے مرنے والوں کی لاشوں کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ اس نے جزیرہ مائیکون میں ایک لاش کوویمپائر قرار دے کر قبر سے نکالنے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور چلانے کا عمل اپنی آنکھوں سیدیکھا تھا۔ کہا گیا تھا کہ اس دیمپائر نے بستی کے آدھے باشندوں کی ہڈیاں توڑ دی تھیں اورخون چوس لیا تھا۔کہا جاتا تھا کہ گوبلن یا روبن گڈ فیلو اگر چہ لوگوں کو خوفزدہ کر دیتا ہے تاہم وہانسانوں کا دشمن نہیں ہے۔ اگر چہ شیکسپیئر نے اسے اوبرن کی پیروکار پر یوں میں شامل کیا ہیتاہم وہ پری کی نسبت فینٹم سے زیادہ مشابہت رکھتا تھا۔
سترہویں صدی کا ایک ادیب لکھتا ہے کہ ہا بگوبلن یا اسی قسم کی رومیں دوسریروحوں کی نسبت زیادہ شناسا اور گھریلو ہیں ۔ وہ جہاں رہتی ہیں ان مکانوں کے مکینوں کوزیادہ تنگ نہیں کرتیں تا کہ وہ مکان چھوڑ کر نہ جائیں۔ وہ کسی کو نقصان پہنچائے بغیر شور مچاتی ہیں بستی میں قہقہے لگاتی ہیں ۔ بعض اوقات وہ ساز بجانے لگتی ہیں اور کوئی انہیں پکارے تواسے جواب دیتی ہیں ۔ وہ کچھ خاص نشانات قہقہوں اور خوش گوار اشاروں میں ہوتی ہیں تا کہ وہ ان سے خوفزدہ نہ ہو۔سکاٹ لینڈ کی بوگل ایسی ہی ایک بے ضرر روح ہے جو کہ نقصان پہنچانے کیبجائے بے ضرر شرارتیں کر کے محفوظ ہوتی ہے۔ڈریشن پک کا ذکر کرتا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ بیشتر لوگ انہیں ہا جو بلن کہتیہیں ۔ گوبلن سے جو حرکات منسوب کی جاتی ہیں وہ پولٹر گانسٹ سے مماثلت رکھتی ہیں۔
جہاں گوبلن ہوتا ہے وہاں اشیا کمرے میں لڑھکنے لگتی ہیں برتن ٹوٹ جاتے ہیں جگ میز سے اٹھتے ہیں اور ان میں موجود مشروب فرش پر گر جاتا ہے اور چاقو کانٹے اور پیچ فضا میںیوں حرکت کرتے ہیں جیسے دکھائی نہ دینے والے ہاتھوں میں ہوں۔
٭٭٭