محترم قارئین! امام الائمہ، کاشف الغمتہ، سراج الامہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا عرس پاک29,30رجب المرجب کو ہمیشہ مرکز اہل سنت آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ پر انتہائی ادب واحترام اور تزک واحتشام سے منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی انشاء اللہ العزیز بمطابق10،11فروری بروز ہفتہ اتوار منایا جائے گا۔ باقی مرکزی سنی رضوی جامع مسجدجرسی سٹی ودیگر مختلف مقامات پر مختلف تواریخ میں منایا جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے بڑی عزت اور شان عطا فرمائی ہے۔ آپ کا دربار گوہر بار بندا کی سرزمین پر عراق میں موجود ہے۔ آپ کا اسم گرامی نعمان والد محترم کا اسم شریف ثابت اور آپ کی کفیت ابوحنیفہ ہے۔ اور آپ علم شریعت کے مہر وماہ بن کر آسمان طریقت پر روشن ہوئے اور آپ ناصرف رموز حقیقت سے آگاہ تھے بلکہ دقیق مسائل کے معانی ومطالب بڑی آسانی سے واضح کر دینے میں مکمل عبور اور صلاحیت رکھتے تھے اور آپ کی عظمت وجلالت کی یہ دلیل ہے کہ غیر مسلم بھی آپ کی تعریف و احترام کرتے تھے۔ عبادت وریاست میں بھی آپ رضی اللہ عنہ نے بڑا مقام حاصل کیا آپ کو بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام علیھم الرضوان سے شرف نیاز رہا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ تابعی ہونے کا اعلیٰ مقام بھی رکھتے ہیں۔ حضرت فضیل ابن عیاض، حضرت ابراہیم بن ارہم اور حضرت بشر حاضی جیسے جلیل المرتبت اولیاء کرام علیھم الرضوان آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ آپ نبی پاکۖ کے روضہ انور پر حاضر ہوئے تو آپ نے یہ کہہ کر سلام عرض کیا، ”السلام علیک یا سید المرسلین” تو جواب ملا کہ ”وعلیک السلام یا امام المسلمین، اللہ الصمد! کس قدر شرف ہے اس کی رفعت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟ پھر جب آپ رضی اللہ عنہ دینا سے کنارہ کش ہو کر عبادت وریاضت میں مشغول ہوگئے تو ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضور نبی کریمۖ کی مبارک ہڈیوں کو مزار اقدس سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کر رہا ہوں اور جب دہشت زدہ ہو کر آپ خواب سے بیدار ہوئے تو امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ سے خواب کی تعبیر دریافت کی انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہے۔ آپ کو سنت نبوی علیٰ صاحبھ الصلواة والسلام پرکھنے میں وہ مرتبہ عطا کیا جائے کہ احادیث صحیحہ کو موضوع احادیث سے جدا کرنے کی شناخت ہوجائے گی۔ اس کے بعد جب دوبارہ خواب میں حضور نبی کریمۖ کی زیارت سے شرف ہوئے تو آپۖ نے فرمایا کہ اے ابوحنیفہ! اللہ تعالیٰ نے تیری تخلیق میری سنت کے اظہار کے لئے فرمائی ہے۔ لہذا دنیا سے کنارہ کش مت ہو۔ علم وعمل اور زہد وتقویٰ کے آپ رضی اللہ عنہ پیکر تھے۔ ایک شخص آپ کا قرض دار تھا جس علاقہ میں وہ رہتا تھا اس علاقہ میں ایک شخص فوت ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نماز جنازہ کے لئے وہاں پہنچے تو ہر طرف دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ موسم بھی بہت گرم تھا لیکن آپ کے مقروض کی دیوار کے ساتھ کچھ سایہ تھا چنانچہ جب لوگوں نے کہا کہ آپ یہاں تشریف لے آئیں تو آپ نے فرمایا کہ صاحب خانہ میرا مقروض ہے اسی لئے اس کے مکان سے استفادہ کرنا میرے لئے جائز نہیں کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ قرض کی وجہ سے جو نفع بھی حاصل ہو وہ سود ہے لہٰذا دھوپ برداشت کرلی مگر سایہ میں نہ آئے۔کسی مجوسی نے آپ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرلیا۔ ان ظالموں میں سے کسی ظالم وجابر مجوسی نے آپ سے کہا کہ میرا قلم بنا دیں۔آپ نے فرمایا کہ میں ہرگز نہیں بنا سکتا اور جب اس نے قلم نہ بنانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے محشر میں فرشتوں سے کہا جائے گا کہ ظالموں کو ان کے معاونین کے ہمراہ اٹھائو لہذا میں ایک ظالم کا معاون نہیں بن سکتا۔ حضرت دائود طائی رضی اللہ عنہ سے ہے کہتے ہیں کہ میں نے بیس سال تک کبھی آپ کو تنہائی یا مجمع میں ننگے سر اور ٹانگیں پھیلائے نہیں دیکھا اور جب میں نے عرض کیا کہ تنہائی میں کبھی تو ٹانگیں سیدھی کرلیا کیجئے تو فرمایا کہ مجمع میں تو بندوں کا احترام کروں اور تنہائی میں خدا کا احترام ختم کردوں۔ یہ میرے لئے ممکن نہیں۔ ایک رئیس حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قلبی عناد رکھتا تھا اور نعوذ باللہ ان کو یہودی کہا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اس کو فرمایا کہ میں ایک یہودی کے ساتھ تیری لڑکی کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے غصہ سے کہا کہ آپ امیرالمئومنین ہو کر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ میں تو ایسی شادی کو قطعاً حرام تصور کرتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ تیرے تصور کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جبکہ حضورۖ نے اپنی دو صاحبزادیاں کے بعد دیگرے ایک یہودی کے نکاح میں دے دیں۔ وہ آپ کا اشارہ سمجھ گیا اور توبہ کرکے اپنے برے خیالات سے باز آگیا۔ ایک مرتبہ آپ ایک حمام میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک برہنہ شخص آگیا اور کچھ لوگوں نے تو اس کو فاسق اور کچھ نے ملحد تصور کیا۔ اس کو دیکھتے ہی امام صاحب نے آنکھیں بند کرلیں اور جب اس شخص نے پوچھا کہ آپ کی آنکھوں کی روشنی کب سے ختم ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب سے تو بے حیاء ہوگیا ہے۔ خلیفہ وقت نے ملک الموت کو خواب میں دیکھا تو اس سے پوچھا کہ میری زندگی کتنی رہ گئی ہے تو حضرت عزرائیل علیہ السلام نے پانچوں انگلیاں اٹھا دیں۔ جب سب علماء اس کی تعبیر بتانے سے قاصر رہے تو خلیفہ نے تعبیر آپ سے پوچھی آپ نے فرمایا کہ پانچ انگلیوں سے ان پانچ چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کا علم صرف خدا کے پاس ہے۔1قیامت کا۔2بارش کا۔3حاملہ کے حمل کا یہ انسان کی کلی کا، موت اور اسکے مقام کا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے فیضان جرات وبہادری اور علم وعمل سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے