بجٹ میں آئی ایم ایف کے اہداف سرفہرست!!!

0
44

وزارت منصوبہ بندی ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن محمد جہانزیب کی زیر صدارت سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی )کے اجلاس میں آئندہ مالی سال 2024-25 کیلئے وفاقی ترقیاتی پروگرام(پی ایس ڈی پی)کیلئے 1221ارب روپے مختص کرنے کی تجویز کی منظوری دیدی گئی ہے۔ دنیا بھر میں قائم حکومتیں اپنے اپنے انداز میں اپنے عوام کو ریلیف فراہم کرتے ہیں ،حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر بجٹ دوسرے بجٹ سے بہتر ہو اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے لیکن پاکستان میں ہمیشہ اس کا اُلٹ ہوتا ہے ،ہر بجٹ دوسرے بجٹ سے زیادہ سخت ہوتاہے ۔اس بجٹ میں آئندہ مالی سال کیلئے جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ 3.6 فیصد لگایا گیاہے جبکہ مہنگائی کی شرح کا متوقع ہدف12فیصد مقرر کیا گیا ہے حالانکہ آنے والے بجٹ میں عوام کو ریلیف کی خوشخبری سنائی جانی چاہیے تھی ،لیکن متوقع مہنگائی کی شرح بھی بتائی ہے کہ وہ 12فیصد ہو گی ۔اس کے علاوہ مجموعی سرمایہ کاری میں ا ضافے کی شرح 14.2 فیصدکرنے کی تجویز دی گئی ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ کاری کون کرے گا ؟ جب آپ کسی سرمایہ کاری کو سہولت فراہم نہیں کریں گے ۔وہ سرمایہ کاری کیوں کرے گا ۔سعودی عرب نے پہلے ہی شکایت کی تھی کہ جب تک بیوروکریسی سے بیرونی سرمایہ کاری کو آزاد نہیں کیا جاتا تب تک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا مشکل کا م ہے ۔ گو اس کے لیے حکومت نے اب ایک کونسل ترتیب دی ہے لیکن اس کے باوجود بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہیں ہو رہا ۔دوسری بات یہ ہے کہ بیرون ممالک میں قائم سفارتخانوں میں کمرشل اتاشیوں کی وہ سرگرمیاں ہی نظر نہیں آ رہیں جو ماضی میں آتی تھیں ۔اس لیے بیرونی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے لیے حکومت کو کم ازکم ایسا ماحول بنانا چاہیے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری ہوتی نظر آئے ۔ دنیا بھر کی حکومتیں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سماجی شعبے صحت ، تعلیم اور اعلی تعلیم کیلئے بجٹ میںاضافہ کرتے ہیں ۔عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔بلکہ امریکہ اور یورپ میں تو عوام کو صحت کی تمام سہولتیں فری میں دستیاب ہیں ۔جبکہ تعلیم بھی مفت میں فراہم کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے،آئندہ مالی سال کے مجوزہ بجٹ میں صحت ،تعلیم اور اعلی تعلیم کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کمی کر دی گئی اور 60ارب روپے کم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ گزشتہ برس کے 203ارب روپے کے مقابلے میں صرف83ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ،اس حوالے سے حکومت نے عوام کی بجائے ،آئی ایم ایف کی پیروی کی ہے کیونکہ بجٹ کے لیے ہونے والی حالیہ مشاورت میںیہ بات سامنے آئی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث صحت ، تعلیم اور دیگر شعبوں کے منصوبوں کا ترقیاتی بجٹ متاثر ہوا ہے، حکومت کو آئی ایم ایف کی بجائے عوام کوترجیع دینی چاہیے تھی ۔ آنے والے بجٹ میں آئی ایم ایف نے بھی تجاویز دی ہیں ۔پاکستان کا بجٹ ہمیشہ سے ہی آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق بنتا ہے، اس بار بھی آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ ایس ایم ای سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ آئی ایم ایف جس نے پہلے ہی پاکستان کو بتا دیا ہے کہ اس کے حالیہ مشن کے دورہ کے نتائج کی روشنی میں ایک ابتدائی رپورٹ تیار کی جائے گی، اور فنڈ انتظامیہ کی منظوری سے اس کو آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے لایا جائے گا جو مزید ممکنہ پروگرام پر مزید بات چیت کے متعلق فیصلہ کرے گا۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے جو نئی شرائط پر مبنی دستاویز دی گئی ہے اس میں جی ایس ٹی کا ریٹ 18 سے 19 فیصد کرنے کی تجویز موجود ہے۔یقینی طور پر جی ایس ٹی کا ریٹ بڑھنے سے ہر چیز کے دام میں اضافہ ہو گا۔بجٹ میں پرسنل انکم ٹیکس کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف نے زیادہ آمدنی والے طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ شرح کو 30 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ سرکاری ملازمین کے لیے ٹیکس سلیبز کی تعداد بھی سات سے کم کرکے چار کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس وقت انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی میں1200ارب روپے کی استثنیات موجود ہے۔ آئی ایم ایف کی تجویز ہے کہ ان میں کم از کم 600ارب روپے کی کٹوتی کی جائے، اس لئے تینوں بڑے ٹیکسوں میں عوام پر بوجھ میں اضافہ ہو گا۔ جب کہ مہنگائی بھی اسی تناسب سے بڑھے گی ۔تمام زیرو ریٹنگ سے متعلقہ سیلز ٹیکس ایکٹ سے پانچواں شیڈول ختم کرنے اور ما سوائے برآمدات کے دیگر تمام اشیا کو معیاری شرح جی ایس ٹی میں لانے کی تجویز دی ہے۔ چھٹے شیڈول میں بھی غیر ضروری ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آٹھویں شیڈول کے تحت بھی ٹیکسوں کی رعایتی شرح کو صرف اور صرف غذائی اشیا اور صحت و تعلیم سے متعلق ضروری اشیا تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔یقینی طور پر یہ سبھی چیزیں ابھی ابتدا میں ہیں۔لہذا وزیر اعظم پاکستان اور کابینہ کے پاس جب بجٹ کا ابتدائی خاکہ حتمی منظوری کے لیے آئے تو زائد ٹیکسز پر کٹ لگا کر عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here