آجکل سوشل میڈیا پر شیخ مجیب اور عمران خان کا موزانہ کیا جارہا ہے جن کو فوج مخالف قیادت دیکھائی جارہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ شیخ مجیب اور عمران کا موازنہ ہاتھی اور چیونٹی کے مترادف ہے۔ شیخ مجیب نے بنگال کی گلی کوچوں میں پاکستان کا پرچم لہرایا تھا کہ بن کر رہے گا پاکستان کے وجود کے بعد انہوں نے حسین شہید سروردی جیسے شخص کی شاگردی کی جن کو قائداعظم کی خصوصی دعوت پر پاکستان لایا گیا تھا۔ شیخ مجیب نے نوجوانی ہی میں گورنر جنرلوں اور فوجی جنرلوں کی پاکستان کے معاملات میں مداخلت پر مخالفت کرتے ہوئے جیل کی اپناگھر بنا لیا تھا۔ جنہوں نے جنرل ایوب خان کے مدمقابل صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا جس کی بنا پر ان پر ….سازش کیس بنایا گیا تھا۔ شیخ مجیب نے عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کے اتحاد سے ملک گیر صوبائی مختاری کی تحریک چلائی تھی۔ جس کی بنا پر جنرلوں کو ون یونٹ توڑنا پڑا تھا جو جنرل ایوب کے زوال کا باعث بنا تھا۔ شیخ مجیب نے پاکستان کو بچانے اور متحد کرنے کے لیے گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی تاکہ ملک میں کوئی سویلین نظام قائم ہوجائے جو نہ ہو پایا کہ جنرل یحیٰی خاں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ شیخ مجیب نے1970کے انتخابات میں پورے مشرقی پاکستان میں ماسوائے دو نشستوں تمام سیٹیں جیت کر ثابت کیا۔ وہ پاکستان کا سربراہ بنے گا جس کو تسلیم نہ کرتے ہوئے جنرلوں نے ملک توڑ دیا جبکہ شیخ مجیب ملک توڑنے کے خلاف تھے شیخ مجیب کی ساری زندگی گورنر جنرلوں اور فوجی جنرلوں کے خلاف تحریکوں میں گزاری ہے۔ جو …وقت میں جیل میں پڑے رہتے تھے جن کے پاکستانی جنرل اور جاگیردار جانی دشمن تھے جنہوں نے اپنی طویل سازشوں سے سابقہ شرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں بھی خاندان سمیت مروا دیا تھا۔ جبکہ عمران خان جنرلوں کی پیداوار میں جنہوں نے جنرلوں کی مخالفت کی بجائے آئین شکن جنرل ضیائ، جنرل مشرف، جنرل گل حمید، جنرل پاشا، جنرل راحیل شریف، جنرل ظہیر السلام، جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید کی گود میں پیدائش پرورش اور تربیت پائی ہے۔ جنرل ضیاء نے عمران خان کی ریٹائرمنٹ کے باوجود تاحیات کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا۔ جنرل گل حمید نے پی ٹی آئی کے نام پر کھلونا بنا کردیا۔ جنرل مشرف نے بڑی مشکلات کے باوجود دھاندلی برپا کرکے ایک نشست دلوائی تھی۔ کیونکہ عمران خان نے جنرل مشرف کے مارشلاء کو ویلکم کیا اور ان کے ریفرنڈم کی پورے ملک میں مہم چلائی تھی۔ جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام اور جنرل راحیل شریف نے ایک دنیا کا مہنگا ترین120دن کا125کروڑ کا سازشی دھرنا دلوایا جس کو ختم کرنے کے لئے پشاور آرمی اسکول کے140بچوں اور استادوں کو مارنا پڑا تھا۔ عمران خان کو2013میں بڑی مشکل سے دو درجن سیٹیں دلوا کر سامنا لایا گیا جس کے بعد2018میں ایک تاریخی دھاندلی برپا کیا گیا جس میں پورے ملک کے انتخابی کمپیوٹر بند، عملہ بند، ڈبے بند، ایجنٹ بند، نتائج بند کرکے جتوایا گیا جو ملک کے لئے ایک فتنہ بن کر ثابت ہوا کہ آج ملک میں استحکام کی بجائے انتقام کی آگ جل رہی ہے۔ جس میں پورا ملک جل رہا ہے۔ حالانکہ موصوف کو مرکز اور دو صوبوں میں حکومتیں بنا کر دی گئی تھیں جس میں مرکز میں ساڑھے تین سال، پختونخواہ میں دس سال پنجاب میں پانچ سال تک حکمران لایا ہے جس میں کارکردگی زیرو ثابت ہوئی جو آج بھی پختونخواہ میں حکمران رہا ہے جس کا وزیراعلیٰ مانا ہوا ایک غنڈا اور بدمعاش ہے جو بدکرداری میں منور ہے جن کو عمران خان نے خصوصی طور پر وزیراعلیٰ بنایا ہے تاکہ ماضی میں پختونخواہ کی علیحدگی میں کام آپائے۔ جس کے اثرات نظر آرہے ہیں پاکستان کی تقسیم کی وجہ سے آج نہیں تو کل پختونخواہ پر طالبان قبضہ کرلیں گے جن کا نظریہ توسیع پسندی اسرائیل سے ملتا جلتا ہے کہ ماضی کے علاقوں پر قبضہ کیا جائے جو ان کے آبائو اجداد کے دور میں کابل کے ماتحت تھے جس میں پختونخواہ کے علاوہ پورا لاہور اور دلی بھی شامل تھا۔ تاہم عمران خان کی رگ رگ میں جنرلوں کا خون پیسنہ رہا ہے۔ جو آج بھی سابقہ فوجی افسران کا کلی اور حاضر ڈیوٹی میں جزوی ہے جس کی بنا پر ان پر اصلی مقدمات کے بجائے عدت میں معدت پانا ناجائز اولاد کے غیر اخلاقی مقدمات بنائے گئے ہیں جن کی انہیں پرواہ تک نہیں ہے۔ جو جوانی میں ایک پلے بوائے رہ چکا ہو ان پر عدت مدت یا بنا شادی اولاد کی پیدائش کا کیا اثر پڑتا ہے۔ بہرحال پاکستان کے جنرلوں نے جو کھیل کھیلا ہے اس پر آخرکار1971کی طرح پھر دوبارہ پھنس چکے ہیں جن کو گرفتار پھر بھارت کرے گا جو عمران خان کی ہر طرح مدد کر رہا ہے جس نے اب یہ نئی تحریک چلا رکھی ہے کہ عمران خان پھر ایک اور مجیب بنے گا جس سے پاکستان ٹوٹے گا جس میں سب سے پہلے صوبہ پختونخواہ الگ ہوگا جس کا طالبان مطالبہ کر رہا ہے کہ ہمیں چکوال تک علاقے واپس کیئے جائیں جو زنجیت سنگھ نے لئے تھے۔
٭٭٭٭٭