کردار مختصر تھا کہانی میں ہم بھی تھے!!!

0
30

عام طور پر ترقی یافتہ علاقوں کو ہم بڑے بڑے سانحات کے مہلک اثرات سے مبراسمجھتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے، بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ بننے والے شہری علاقوں کے بارے میں تو کسی بڑی تباہی کے آنے کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ زلزلوں کو برداشت کرنے والی بلند و بالا عمارتیں ہوں، سیلاب کے پانی کی نکاسی کا زبردست نظام ہو، آگ بجھانے والا مہنگا ترین سامان ہو یا سمندری و برفانی طوفانوں سے نبٹنے کیلئے کیا جانے والا انتظام ہو، انسان ہمیشہ اپنے تیار کئے ہوئے ان مادی ذرائع پر بڑا نازاں رہتا ہے لیکن چشمِ فلک نے بارہا دیکھا ہے کہ اسی معلوم کائنات میں ایسے نامعلوم اور غیرمتوقع بھنور پیدا ہوجاتے ہیں کہ انسان کے سارے پیشگی کئے گئے اقدامات، دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور جھونپڑیوں سے لے کر محلات تک ناگہانی آفات کے سامنے خس و خاشاک ہو جاتے ہیں۔ اقبال نے فرمایا ہے کہ
ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے
پرد مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے
امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کی ایک امیر و کبیر ریاست کیلیفورنیا میں بھڑکنے والی آگ، اِس وقت وہاں کے پڑھے لکھے مکینوں کو ان کی یہی بے بسی یاد کروا رہی ہے۔ گزشتہ چند روز میں ہی، دو لاکھ سے زائد لوگوں کو بے گھر ہونا پڑ گیا ہے۔ افراد کی ہلاکت کی مصدقہ اطلاعات ہیں جبکہ بارہ ہزار سے زائد بلڈنگز تباہ ہو چکی ہیں۔ امیر ہوں یا غریب سبھی لوگ اس وقت مدد کے مستحق ہیں۔ زکواة فائونڈیشن آف امریکہ جب کھانا، کمبل اور ضرورت کی دیگر اشیا کی تقسیم کیلئے کیمپ لگاتی ہے تو چند گھنٹوں میں ہی ضرورت مند لوگ اپنے حصے کا سامان لے جاتے ہیں۔ ہماری مقامی ٹیم کو اندازہ ہے کہ یہاں زیادہ تر بیحد امیر لوگ رہتے ہیں لیکن آجکل وہی امیر جھولی پھیلانے پر مجبور ہیں کیونکہ پلک جھپکتے میں ہی انہیں آگ کی لپٹ نے سڑک پر لا کھڑا کیا ہے۔ اقبال کیفی کے بقول،
رتیں بدلتی ہیں وقت ایک سا نہیں رہتا
تمام عمر نہ بیدار بخت رہتے ہیں
خزاں کا دور بھی آتا ہے ایک دن کیفی
سدا بہار کہاں تک درخت رہتے ہیں
اس علاقے میں آگ بجھانے کا خاطرخواہ نظام موجود تھا لیکن معمول سے کہیں زیادہ تیز ہوا نے آگ کی چنگاریاں، انتہائی تیزی سے ایک وسیع و عریض علاقے میں پھیلا دیں۔ بیک وقت کئی جگہ لگنے والی آگ نے پانی کے پمپنگ کے نظام کو ناکارہ کردیا اور پہلے تین چار گھنٹے کے بعد اس بڑے وسیع و عریض علاقے میں پینے کا پانی بھی ختم ہو گیا۔ ہواں کی تیزی نے آگ بجھانے والے جہازوں کی اڑانوں کو بھی ایسا متاثر کیا کہ بڑے بڑے محل نما گھر پل بھر میں زمیں بوس ہو گئے۔ زکو فانڈیشن کے مقامی رضاکاروں کے مطابق، کئی مسلمان گھرانے بھی اس آگ سے براہِ راست متاثر ہوئے اور الٹا ڈینا (Altadena) کی ایک مشہور مسجد، مسجد تقوی بھی شعلوں کی نذر ہو گئی۔بے گھر لوگوں کیلئے کئی اسکولوں میں شیلٹر قائم کردئے گئے ہیں۔ کئی لوگوں کو ان کی ہوم انشورنس نے ہوٹلوں میں ٹھہرانے کا بندوبست بھی کردیا ہے۔ عزیز رشتہ داروں کے علاوہ قرب و جوار کے عام لوگوں نے بھی اپنے گھروں کے دروازے کھول دئیے ہیں تاکہ بے گھر لوگ سردی کی شدت سے بچ سکیں۔ گرم کھانا تقسیم کرنے والی کئی تنظیمیں وہاں کام کر رہی ہیں۔ متاثرہ لوگ جلد از جلد اپنے گھر واپس جاکر اپنی قیمتی اشیا تلاش کرنا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ شام کو اندھیرا ہوتے ہی سیکیورٹی ادارے کرفیو لگا دیتے ہیں تاکہ لوٹ مار اور چوریوں سے بچا جا سکے۔ اس علاقے کے قرب و جوار میں رہنے والے مسلمانوں نے اپنے پڑوسیوں کی خوب خدمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ تقریبا ساری مساجد نے ضروری سامان جمع کر کے متاثرین تک پہنچایا ہے بلکہ مسلسل پہنچا رہے ہیں۔ ایسی مواقع پر منظم تنظیمیں بہت کام آتی ہیں۔ زکو فانڈیشن جیسے بہت سے ادارے، اپنی تجربہ کار لیڈرشپ کے ساتھ، بہترین طریقے سے کام کر رہے ہیں۔
کیلیفورنیا کے اس علاقے کے مکین، بنیادی انسانی حقوق کے بڑے چیمپئن ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں بھی ان کی بڑی اکثریت ہمیشہ بڑے بڑے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کرکے حکومتِ وقت پر دبا ڈالتی رہتی ہے۔ غزہ میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف بھی یہاں کی سب سے بڑی یونیورسٹی (UCLA) احتجاج کا مرکز بنی رہی۔ امریکہ میں آنے والے پناہ گزینوں کیلئے بھی ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ امریکہ میں زیادہ امیگریشن کے بھی یہ زبردست حامی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے لبرل ازم میں حد سے آگے بڑھتے ہوئے، کچھ سوشل اشوز پر ان میں سے اکثر کی رائے مسلم کمیونٹی کے بالکل برعکس ہے لیکن مقامی سیاسی اشوز پر اتفاق ہونے کی وجہ سے مسلمان، کیلیفورنیا میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔اس آگ سے متاثر ہونے والے زیادہ تر علاقے، مشہورِ زمانہ ہالی ووڈ (Hollywood) کے گردو نواح میں واقع ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی اور عظیم فلم انڈسٹری کے تخلیق کار اور فنکار بھی اسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ میں نے یہ علاقہ کئی مرتبہ وزٹ کیا ہے۔ بلکہ پچھلے سال ہماری پوری فیملی نے رمضان کا پہلا روزہ اسی علاقے میں افطار کیا تھا۔ آگ کی وجہ سے، آج یہ علاقہ No Go Area بنا ہوا ہے۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر نشر کی جانے والی تباہی کی تصاویر دیکھی نہیں جاتیں۔لگتا ہے کوئی دیو پھر گیا ہے۔ مستقبلِ قریب میں، اس ہولناک آگ پر یہی ہالی ووڈ والے کئی فلمیں بنائیں گے لیکن اس وقت تو وہاں کے مکین اپنے آبائی گھروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور کچھ نہیں کر پا رہے۔ دعا ہے کہ اللہ انہیں مزید نقصانات سے بچائے اور صحیح سلامت دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کرے ۔ آمین
۔۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here