یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا!!!

0
107
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! اس ہفتہ میرے پاس دو موضوع ہیں ایک نیشنل اسمبلی میں جوائنٹ سیشن اور دوسرا عاصمہ جہانگیر کانفرنس سب سے پہلے تو میں اپنے بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو دل کی گہرائی سے ان کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے پر مبارک دیتا ہوں !
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
کی بات ہے جب میں نے بیرون ملک پاکستانیوں کے حق ووٹ کی اپیل کی تھی اس وقت میرا بیان نوائے وقت لاہور میں چھپا لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے راقم کو پاکستان مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے پذیرائی نہ ملی اس کی بنیادی وجہ نہ پرائیوٹ ٹی وی تھا نہ سوشل میڈیا تھا نہ سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی استدا پھر برطانیہ سے ایک گروپ نے سپریم کورٹ میں ووٹ کے حق کے لئے رٹ دائیر کی لیکن وقت گزرتا گیا لیکن ان کی رٹ کے بارے پتہ نہیں کیا بنا لیکن گاہے بگاہے بیرون پاکستانیوں کے حق رائے دہی کی آواز بلند ہوتی رہی لیکن یہ رتبہ وزیر اعظم عمران خان کو ملا کے انہوں نے قوم سے اور بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو آئین کی روح سے یہ حق ہم لوگوں کو دلوا دیا اِس کے لئے جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ان کی پارٹی بھی مبارک باد کی مستحق ہے ۔
قارئین وطن!! میں نے آپ لوگوں کی طرح اس سیشن کی کاروائی سنی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر سنی جس میں اس نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کی نفی کی اور بہت سے حیلے بہانوں سے ہزار عضر پیش کئے اس کی ایک وجہ جب نواز شریف پرائیم منسٹر کی حثییت سے یو ان کیسیشن میں تشریف لایا تو اس کے استقبال کے لئے شہباز شریف کا مشہور پینڈر pander کیپٹن شاہین بٹ تقریباً 50 آدمیوں کے ساتھ اس کے استقبال کے لئے جمع تھا جبکہ سڑک کے دوسری جانب عمران خان کے حمایتیوں کی تعداد سے ہزار مرد و خواتین پر مشتمل تھی اس دن سے اِن کے دلوں میں یہ خوف بیٹھ گیا کہ بیرون ملک پاکستانی پی ٹی آئی کے ووٹر ہیں بس اس کے بعد سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے خلاف ہیں اور دوسری طرف عمران کو یہ پختہ یقین ہے کہ بیرون ملک آباد کاروں کا ووٹ اس کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چوہدری احسن اقبال نے کہا کہ ان لوگوں کو کیا معلوم کے پاکستان کے سیاسی نظام کا خیر یہ لمبی بات ہو جائے گی اس پر پھر بات ہوگی کہ یہ ن لیگی اپنے حق میں کمیونٹی فنکشن کے لئے کس قدر مقامی لیڈران کی منت سماجت کرتے تھے۔
قارئین وطن! ب شہباز شریف اسمبلی میں تقریر کر رہا تھا تھوک اس کے منہ سے فوارے کی طرح بہہ رہی تھی اور اس نے کسٹوڈئین آف دی ہاس کی تزلیل کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی میں یہ سوچ رہا تھا کہ پاکستان کی کیا قسمت ہے کہ نیشنل اسمبلی میں ایک چور ایک خائین ایک لٹیرا ٹی ٹیوں کا فراڈی اپوزیشن لیڈر ہے بیچاری قوم کو لوٹنے کے بعد بھی ان کا ہمدرد بن کر بھاشن دے رہا ہے اور دوسری طرف حکومتی بنچ پر بیٹھا وزیر خارجہ جس کا دادا انگریزوں کے کتے نہلانے والا اس کو ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے ، میں یہی سوچ سوچ کر کبھی ہنستا کبھی روتا کہ قوم سے کیسا مذاق ہو رہا ہے اور ہم ایک دوسرے کے طرف دار اسی میں خوش ہیں کے یہ ہمارے رہنما ہیں ۔ آصف زرداری اور بلاول بھی جو سزا یافتہ ہیں کیسے الفاظوں کے گورکھ دھندے سے بیچاری قوم کا منہ چڑا رہے ہیں ۔ قائد اعظم اور ان کے رفقابھی اپنے پاکستان کی زبوں حالی پر رو رہے ہوں گے سالوں کے بعد بھی قوم کو اپنے رہنماں کی تمیز نہیں ہے ۔
قارئین وطن! عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا حال آپ سب نے سنا اور دیکھا ہوگا جس کو بلا مبالغہ ایک ایک پائی کا خرچہ مفرور نواز شریف آرمی، عدلیہ اور عمران تباہی اور بربادی فنڈ نے اٹھایا اور عاصمہ جہانگیر کے سرپرستان سی آئی اے، ایم آئی سیکس اور را نے بھی اپنا حصہ ڈالا پوری دنیا جانتی ہے کہ عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی پاکستان میں سی آئی اے کے مستند اہل کار تھے اور اس کے بعد تیز ترار صاحبزادی کے سر پر تاج رکھا گیا وکیل ہونے کے ناطے اس نے ان وکلا پر مشتمل ایک لابی تیار کی جن کا کام وطن کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کر نا ہے کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنا ہے اور اس کا معاوضہ بھارت بذریعہ ڈولکی کی تھاپ پر ملتا تھا بدقسمتی سے اس کام کو کسی سلامتی کے ادارے نے نہیں روکا اور یہ این جی او کی شکل میں اپنا کام کرتی رہی۔
قارئین وطن! عاصمہ جہانگیر ہیومن رائٹ کے پردے کے پیچھے اپنے جیسے وکیلوں کو ملا کر فوج اور ججوں کو ملائین کرنے کے لئے ایک اسٹیبلش نام بن گئی ہے ۔چوہدری رانا افتخار سابق چیف جسٹس کی مشرف عدلیہ لڑائی میں دوسرا کردار جو ابھر کر آیا علی احمد کرد صاحب تھے پورا پاکستان ان کی بے باقی اور اندازِ مقرری کا مدعا تھا ہمارے دوست جو امریکہ میں رانا افتخار چوہدری کے ہوسٹ تھے قائد تحریک عدلیہ رانا رمضان تھے ہم بھی افتخار صاحب کے مدعاں میں سے تھے لیکن علی احمد کرد اس کے حراول دستے کے سیکنڈ ان کمانڈ تھے اعتزاز احسن کے بعد اور کرد صاحب وکلا برادری میں اور جرنل عوام میں بڑے پسندیدہ کردار تھے اپنی تقریر اور ایکٹنگ کے حوالے سے مجھ کو کرد کی ڈرائیوری کا شرف بھی ملا اور خادم نے ان کو شیر پاکستان کا خطاب دیا لیکن آہستہ آہستہ وہ نواز شریف کے اینٹی پاکستان اینٹی افواج اور عدلئیہ گالی گلوچ فورس کے کمانڈر بن گئے اور ہماری اور ذی شعور ذہنوں سے اترتے گئے۔
قارئین وطن! جبکہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کنونشن نواز شریف اسکرپٹ کے تحت منعقد کیا جا رہا ہے اور ہیومن رائٹ کی آڑ میں عدلیہ کو بدنام کرنے کے لئے ملک کی سب سے بڑی عدلیہ کے چیف جسٹس گلزار احمد، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف عطرمن اللہ اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف کو بلا کر علی احمد کرد کو ان پر چھوڑ دیا اور اس نے اپنے مقصوص انداز میں چنگاڑا اور چیف جسٹس صاحب کی ٹوپی اپنے پاں تلے رکھنے کی بھر پور کوشش کی لیکن یہ تو بھلا ہو گلزار احمد صاحب کا کہ انہوں نے اپنی ٹوپی اتارنے نہیں دی۔ دوسری بڑی زیادتی اس وقت ہوئی جب تین جج صاحبان کی موجودگی میں جن کی عدالتوں میں چور خائین اور لٹیرے مفرور کے خلاف مقدمے چل رہے ہیں سے تقریر کر وائی گئی اس سے پہلے ایسے کسی اقدام کی نظیر نہیں ملتی اس کانفرنس کا واضع مقصد عدلیہ پر پریشر ڈالنا ہے اور کچھ بھی نہیں اب جج صاحبان کی آنکھیں کھلنی چاہئیں کہ ہماری سیاست میں کیسے بہروپیوں نے قبضہ کر رکھا ہے ان سے نجات کی گھڑی آگئی ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here