سچ کا کوئی حامی نہ ہو تو بھی وہ سچ رہیگا۔ جھوٹ کے لاکھوں پرستار ہو تو بھی جھوٹ جھوٹ ہی رہیگا۔ لیکن فرق یہ ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے جھوٹ پر فریب اور خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اسکی قبولیت میں اضافہ کیلئے اسے بنا کر سنوار کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ اسکی اصلیت کو چھپایا جاسکے۔ سچ کو بنانے سنوارنے کی ضرورت نہیں ہوتی اگر آج ایسے قبول نہ بھی کیا جائے تو کل اسے ضرور مانا جائیگا۔ آج سچ قصور وار کہلائے بھی تو خیر ہے لیکن آنے والا کل اسکی صداقت کو ضرور تسلیم کریگا۔ سچ بولنے اور لکھنے والوں کو ہمیشہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔سفراط کو سچ بولنے کی پاواش میں زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا۔ اسی لئے شاعر نے کہا تھا سچ بات کے کہنے پر پینا پڑتا ہے زہر کا پیالہ، جینا ہے تو پھر جرات اظہار نہ مانگو”سچ کے راستہ پر تکالیف اٹھانی پڑتیں ہیں۔ لیکن آخر کار فتح سچ کی ہوتی ہے۔جھوٹ کا چورن بکتا خوب ہے لیکن جب کھانے والوں کا ہاضمہ خراب ہوتا ہے تو پچھتاتے ہیں کہ ہم نے یہ چورن کیوں کھایا؟ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اور اصلی سونے کو چمکانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ قارئین اکرام آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ اس تمہید کا کیا مقصد ہے تو میں عرض کروں کہ کبھی کبھی جھوٹ کی گاڑی کی رش دیکھ کر لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں اسی طرح قلمکار بھی اپنی بکری بڑھانے کیلئے بکنے والی کہانی رکھتے رہتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ(قلم کار) اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ بکری ہوتی ہے یا نہیں وہ جو حقیقت میں انہیں سمجھ آتا ہے وہی رکھتے ہیں کیونکہ تحریریں تاریخ بناتی ہیں اور تاریخ زندہ رہتی ہے۔ منہ سے نکلی بات تو ہوا میں اڑ جاتی ہے کاغذ پر لکھی ہوئی یا چھپی ہوئی بات سالوں اور صدیوں تک محفوظ رہتی ہے۔ تحریک انصاف بظاہر تو ایک مقبول جماعت ہے لیکن اگر اس کی تنظیم منشور اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی ہی مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتیں ون مین شو نہیں ہوتیں کسی بہترین کھلاڑی اداکار یا ایک مقبول شخص کی بنیاد پر نہیں چلتیں ایک انسان آج ہے کل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کارکن ہیں تنظیم ہے درمیانی اور نیچے درجے کے رہنما موجود ہیں منشور موجود ہے کارکردگی موجود ہے تو کوئی رہے یا چلا بھی جائے تو سیاسی جماعتیں تسلسل سے چلتی رہتی ہیں۔ سیاست میں ایک جماعت میں ساتھیوں کا ایک دوسرے پراعتماد بھی نہایت ضروری ہے۔ ا گر ایک سیاسی جماعت میں لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کاٹنے کے درپے ہوں تو پھر وہ سیاسی جماعت زیادہ وقت قائم نہیں رہتی۔ سیاسی جماعتوں پر اچھا برا وقت آتا رہتا ہے لیکن جس طرح کسی انسان کی پرکھ مشکل وقت آنے پر ہوتی ہے اسی طرح سیاسی جماعتوں کے قد کاٹھ کا پتہ بھی اسکے برے وقت پر ہی ہوتا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اقتدار میں تو جماعتیں اچھا وقت گزارتی ہیں لوگ دوڑ دوڑ کر اس میں شامل ہوتے ہیں برے وقت میں کتنے لوگ ہیں جو ڈٹ جائیں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کریں کوڑے بھی لگیں تو بھی نعرے لگاتے رہیں پھانسیاں لگیں تو بھی اپنے پیروں پر چل کر جائیں اور پھندے بھی اپنے ہاتھوں سے ہار سمجھ کر پہن لیں اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی جماعت کے رہنمائوں نے کارکنوں کو ڈھال نہیں بنایا انہوں نے خود ڈھال بن کر اپنے کارکنوں اپنے منشور اور اپنی تنظیم کے لئے اپنی جانیں لٹا دیں۔ کوئی گڑھی خدا بخش جا کر بھٹو خاندان کی قبروں کی قطاریں تو دیکھیں جہاں45سال کے بعد بھی ذوالفقار علی بھٹو کی مزار پر مسلسل قرآن خوانی ہوتی ہیں کارکنوں کی خون آلود ….آج بھی قبروں کے اوپر جھول رہی ہیں۔ اپنے رہنمائوں کو خراج عقیدت پیش کر رہی ہیں۔ شہید بھٹو اور شہید بینظیر کیلئے مفاہمت کا راستہ موجود تھا لیکن انہوں نے اسے ٹھکرا کر شہادت کا راستہ چنا سر اٹھا کر عدالتیں اور صعوبتیں سمجھیں اپنے سر پر لوہے کے ڈبے ڈال کر نہیں آتے تھے عدالتوں میں چمکتے چہروں اور فخر سے اونچے سروں کے ساتھ عدالتوں کا، فوجی عدالتوں کا سامنا کیا لوگوں نے اپنے محبوب رہنما کیلئے خود سوزی کی لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی قربان کرکے تاریخ میں زندہ اپنے کچھ فوقیت دی۔ اسی طرح محترمہ بینظیر پر شاہراہ فیصل پر شدید حملہ ہوچکا پھر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں انکو کہا گیا کہ آپ پر حملہ ہوگا ایک نہیں کئی حملہ آور لیاقت باغ پہنچ چکے ہیں۔ جنرل ندیم تاج نے خود زرداری ہائوس آکر نہیں بتایا کہ محترمہ آپ لیاقت باغ کا27دسمبر کا جلسہ موخر کردیں لیکن محترمہ نے کہا کہ اگر میں عوام کی رہنما ہوتے ہوئے ڈر کر عوام کے پاس جانے سے رک جائوں تو پھر عوام بھی باہر نہیں نکلے گی۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں ہے جان تو آخر جانی ہے
٭٭٭٭٭