لاہور(پاکستان نیوز)پاکستان مہنگائی کے بدترین طوفان کی زد میں آ گیا، ضرورت اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، پیٹرول ، آٹا، دالیں، بجلی ، گیس ہر چیز تین گنا مہنگی ہوگئی، حکومت کی جانب سے مفت آٹا سکیم میں اب تک سینکڑوں افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، تباہ کن سیلاب سے دوچار پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کی خبریں گرم ہوگئیں، حکومت نے رواں برس جون تک 7ارب ڈالر قرض واجب الادا ہونے پر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور اس کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے بجلی مزید 3 روپے 82پیسے تک مہنگی کرنے پر غور کیا جا رہا ہے ، گیس کی قیمتیں بھی بڑھانے کیلئے دبائو ہے ، شرح سود 17 سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے ، ڈالر 285روپے کی تاریخی سطح پر پہنچ گیا ہے ،دالیں، کوکنگ آئل اوراشیا ضروریہ کی بڑی تعداد عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں، سٹاک ایکسچینج میں بھی مندی کا رجحان ہے ، جبکہ حکومت کے ذمہ رواں سال جون تک سات ارب ڈالر کا قرض واجب الادا ہے، ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 37.2 فیصد پر پہنچ گئی ہے ، آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط نے پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان کو جنم دیا اور روپے کی مسلسل گراوٹ سے معاشی بحران بھی بڑھنے لگا ہے، حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے مطالبہ پر ملک میں شرح سود 3فیصدمزید بڑھائی ہے ، ڈالر بھی مہنگا ہوا ہے جس سے مہنگائی کا نیا طوفان آیا ہے۔ دوسری جانب بڑھتی مہنگائی کا سلسلہ صرف پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی ترقی یافتہ معیشتیں بھی اس عذاب کا شکار ہو رہی ہیں۔ امریکہ میں بھی مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ، ویلٹ ہب ویب سائٹ کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق رواں برس مارچ کے دوران افراط زرکی شرح 5 فیصد سے تک پہنچ گئی ہے جبکہ مختلف شہروں میں اس کی شرح مختلف ہے، مہنگائی تیزی سے بڑھنے والے شہروںمیں فلاڈیلفیا ، ڈیٹرائٹ ، فونکس، سیٹل اور اٹلانٹا شامل ہیں، جبکہ ایسے شہر جن میں مہنگائی کم رفتار سے بڑھ رہی ہے ان میں ہونولولو، ریورسائیڈ، انکوراج، میناپولیس اور لاس اینجلس کے شہر شامل ہیں، ان شہروں کا تعین کرنے کے لیے جہاں مہنگائی سب سے زیادہ بڑھ رہی ہے ۔ ادارہ شماریات کی طرف سے ہفتہ وار مہنگائی کی رپورٹ کے مطابق چینی ، تازہ دودھ ، دال مونگ ،مٹن ، گھی ، دال ماش، دال مسور، چاول اور نمک کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے ، پیاز، لہسن، ادرک وغیرہ کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں،پاکستان کو معاشی دلدل سے نکالنے کیلئے حکومت اپنی طرف سے ہر ممکن کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ، چائنیز بینک نے پاکستان کیلئے ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی فنانسنگ سہولت کی منظوری دی ہے جس کی پہلی قسط اسٹیٹ بینک کو موصول ہوچکی ہے،یہ رقم تین قسطوں میں ملے گی ، وزیر خزا نہ کا موقف ہے کہ ملک کی معیشت کیلئے فنانسنگ بہت اہم ہے کیونکہ ہمیں ادائیگی کے توازن کے بحران کا سامنا ہے، پاکستان کو پہلے ہی چائنا ڈویلپمنٹ بینک سے قرضہ مل چکا ہے ، رواں مالی سال جون تک مالیاتی فرق کو ختم کرنے کیلئے 5بلین ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہوگی، سروے کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کا 48 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے، وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ادارے کی جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ فروری میں دیہی علاقوں میں غذائی افراط زر 47فی صد جب کہ شہری علاقوں میں 42فی صد رہا،1974میں مہنگائی کی شرح 33فی صد تھی، چونکہ ان 48سالوں میں معاشی شرح نمو معاشی ترقی معاشی شرح افزائش لوگوں کی فی کس ا?مدن اور دیگر جیساکہ اوپر ذکر کیا ان کے ریکارڈ تو نہ ٹوٹ سکے۔ بیروزگاری اور مہنگائی کے نام پر مختلف سیاسی جماعتیں احتجاج ، اور ریلیاں نکال کر اپنے سیاسی ووٹ بینک میں اضافے کیلئے کوشاں ہیں تو غریب طبقے کے مسائل اسے نگلتے جا رہے ہیں، مہنگائی کے بیانیہ پر جہاں مختلف سیاسی جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں، وہیں صدر مملکت کی طرف سے منظوری کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں ، الیکشن کمیشن نے صوبائی الیکشن کمشنر سے ڈی آر اوز اور آر اوز کی فہرست مانگ لی ہے ،الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کیلئے فنڈز مانگ لئے ہیں، بدترین معاشی حالات میں الیکشن کیلئے خطیر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے، اگر دوصوبوں میں الیکشن پر اتنی بڑی رقم خرچ ہوئی اور بعد میں دیگر صوبوں میں بھی الیکشن کرانے مقصود ہوئے تو عوام پر مزید بوجھ پڑے گا اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا، موجودہ حالات کے پیش نظر اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات ایک دن کرانے کیلئے باہم مشاورت کا مشورہ دیا ہے تمام سیاسی جماعتوں کو ملک میں ایک دن انتخابات کرانے کیلئے مذاکرات کرنے چاہئیں، انتخابات کے بعد کی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے بہتر ہے کہ مل بیٹھ کر فیصلہ کرلیں ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہئیں، اپنی جگہ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ انتخابات کے بعد حالات کیسے بہتر ہوں گے ،کیا موجودہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور عوام کو خط غربت سے نکالنے کیلئے نئی حکومت کیا حکمت عملی اپنائے گی، ا?ئی ایم ایف اور دیگر ادارے کیسے معاشی استحکام میں معاونت کریں گے ،اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔