محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے سوچا اس بار موقع کی مناسبت سے محرم الحرام کے مہینے پر کچھ روشنی ڈالی جائے ۔ملت اسلامیہ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے ہیں جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے ۔اِن عِد الشہورِ عِنداللہِ اثنا عشر شہرا فِی کِتبِ اللہِ یوم خلق السموتِ والارض مِنھآ اربع حرم ذلِک الدِین القیِم فلا تظلِموا فِیھِن انفسِکم ( سور التوبہ آی نمبر کا ابتدائی حصہ )ترجمہ :۔ بے شک مہینوں کی گنتی اللہ تعالی کے نزدیک اس کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں ۔جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا چار ان میں سے حرمت والے ہیں ۔ یہی صحیح دین ہے تو ان (مہینوں )میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔اسلامی تقویم میں (جس کا آغاز ہجرت نبوی سے ہوا قمری سن )کا پہلا مہینہ ماہ محرم الحرام ہے ۔ اسے محرم ۔ المحرم اور محرم الحرام بھی کہتے ہیں ۔ حکم الہی کے مطابق اسلامی شریعت مطہرہ میں سال کے بارہ مہینے مقرر ہیں ۔ اور پہلا مہینہ ماہ محرم لحرام ہے اس کے آغاز میں ال بھی یہ ظاہر کرتاہے کہ یہ سال کا پہلا مہینہ ہے۔ ماہ و سال کا یہ نظام آفرینش کائنات سے قائم و دائم ہے ۔ قمری سن کے مہینوں کے نام یہ ہیں ۔ پہلا مہینہ محرم الحرام۔ دوسرا مہینہ صفر المظفر۔ تیسرا مہینہ ربیع الاول ۔ چوتھا مہینہ ربیع الثانی یا ربیع الآخر ۔ پانچواں مہینہ جمادی الاول ۔ چھٹا مہینہ جماد ی الثانی یا جمادی الآخر ۔ ساتواں مہینہ رجب المرجب ۔ آٹھواں مہینہ شعبان المعظم۔ نواں مہینہ رمضان المبارک ۔ دسواں مہینہ شوال المکرم ۔ گیارہواں مہینہ ذوالقعدہ ۔ یا ذی قعد۔ اور بارہواں مہینہ ذوالحجہ یا ذی الحجہ ۔ اللہ تعالی نے ان مہینوں میں سے چار مہینوں کو برکت والا قراردیاہے ۔ وہ چار مہینے یہ ہیں ۔ ماہ محرم الحرام ، ماہ رجب المرجب، ماہ ذوالقعدہ ۔ اور ماہ ذوالحجہ ۔ ٭ ان میں سے تین متصل ہیں اور چوتھا علیحدہ ہے ، یعنی ماہ ذوالقعدہ ۔ ماہ ذوالحجہ اورماہ محرم الحرام ۔ یہ تین متصل ہیں اور ماہ رجب المرجب علیحدہ ہے ۔ ان مہینوں کے تقدس و احترام کے پیش نظر ان میں جنگ و جدال اور قتل و قتال کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے ۔ ان چار مہینوں میں طاعت و عبادت زیادہ مقبول ہوتی ہے اور گناہ و معصیت زیادہ قابل نفرت اور زیادہ مستوجب سزا ٹھیرتی ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ ان مہینوں کی حرمت کے قائل تھے اور ان میں قتال حرام جانتے تھے ۔ اسلام میں ان مہینوں کی حرمت و عظمت اور زیادہ کی گئی ۔ اہل عرب ان مہینوں مین اپنی تلواریں اپنے نیام میں ڈال دیتے تھے اور لوٹ مار سے رک جاتے تھے اور لوگ اپنے دشمنوں سے بے خوف ہوجاتے تھے یہاں تک کہ آدمی اپنے باپ یا بھائی کے قاتل سے ملتا تھا تو اس سے کچھ تعرض نہ کرتاتھا۔ جزیر العرب میں قمری سن کا رواج حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے زمانے سے چلا آتاہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اسلامی عبادات ، مثلا حج اور رمضان کے روزے بدل بدل کر مختلف موسموں میں آتے ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں عرب اپنی اغراض کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کرلیتے تھے ۔ اسلام نے اس کی ممانعت کردی اور اعلان کردیا کہ اللہ تعالی نے احکام شریعت میں سہولت پیداکرنے کیلئے قمری حساب کو پسند فرمایا ہے ۔
حضورنبی کریم ۖ نے جم الوداع کے مبارک موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اس کی تاکید فرمائی کہ ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالی نے جس طرح مہینوں کی تعداداور ترتیب معین فرمادی ہے اسے برقرار رکھا جائے ۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تقدیم و تاخیر کی وجہ سے مہینوں کی ترتیب میں جو گڑ بڑ پیدا ہوگئی تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے اور مہینے اپنی اصلی حالت پر لوٹ آئے ہیں ۔ اس فرمان مبارک سے واضح ہوا کہ قمری ہجری سن جو اسلامی دنیا میں رائج ہے وہی حتمی وکلی طور پر مستند و معتبر ہے ۔ اور زمانہ جاہلیت کی قطع برید سے اب یہ یکسر پاک ہے ۔ شرعی لحاظ سے قمری حساب ہی معتبر اور قابل اعتماد ہے اور قمری مہینوں اور تاریخوں کی حفاظ و نگہداشت فرض کفایہ ہے ۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی تنزلی کا یہ حال ہے کہ کسی کو قمری ہجری تاریخ ہی یاد نہیں ہوتی ۔ دس میں سے دو افراد ایسے بھی ملیں گے جنہیں سال کے بارہ اسلامی مہینوں کے نام بھی شاید معلوم نہ ہوں اور اگر ہوں تودرست ترتیب سے نہ بتاسکیں گے ۔
ہجری قمری سنہ کا آغاز عہد نبوت سے ہی ہوچکا تھا ۔ حضور ۖ نے اپنے ایک نامہ مبارک میں جو نجران کے نصاری کے نام تحریر فرمایا تھا ، پانچواں سال ھجرت تحریر کرنے کا حکم دیا تھا۔
قمری حساب سے سال کے تقریبا دن ہوتے ہیں جبکہ شمسی حساب سے دن ۔ اس طرح ایک سال کے بعد دونوں تقویموں میں دس دن کا فرق ہوجاتاہے اور تین سال کے بعد ایک ماہ کا ۔
باقی چیدہ چیدہ نکات اور شھادت امام عالی مقام کا زکر اگلے کالمز میں کیا جائیگا
٭٭٭