گل ودھ گئی اے!!!

0
48
جاوید رانا

قارئین کرام! آپ تک یہ بات تو پہنچ گئی ہوگی کہ گزشتہ ہفتہ یہ خاکسار یوم آزادی کے جشن کلچرل ڈے کے انعقاد میں مصروف ہونے کے سبب وطن عزیز میں رونما ہونے اور جاری معاملات پر مکمل توجہ نہ دے سکا تاہم باخبر ضرور رہا، الحمد اللہ اتوار کو ہونیوالا مذکورہ ایونٹ تاریخی کامیابی کا حامل رہا اور اس کی تفصیل حالیہ شمارے میں آپ دیکھ سکیں گے۔ بہتر حال وطن عزیز کے حوالے سے ہمارے گزشتہ کالم کی پسندیدگی پر آپ کا شکریہ واجب ہے۔ گزشتہ کالم کی سُرخی ”بس کرو چیف صاحب” پر بعض احباب کااستفسار کہ چیف صاحب کی واضح تشریح کیوں نہیں کی گئی اچھا لگا اور یہ احساس بھی دلا گیا کہ ہمارے قارئین کس قدر دلچسپی اور بصیرت سے کالم کا مطالعہ کرتے ہیں۔ دوستو! آپ نے وہ قول تو سنا ہوگا”صدر ہرجا کہ نشیند صدر است” یعنی مقتدر یا سربراہ کوئی بھی ہو چیف ہی ہوتا ہے خواہ کسی بھی شعبہ، ادارے یا تنظیم سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر چیف کی تشخیص اس کے روئیوں، اقدامات، فیصلوں اور عوام کی تائید یا عدم تائید سے ہوتی ہے۔ امید ہے کہ ہماری درج بالا وضاحت سے خصوصاً وطن عزیز کے حوالے سے کس کس چیف سے ہمارا تہاتب تھا۔ حقیقت سامنے آگئی ہو گئی۔زور زبردستی، دھونس دھمکی، قانونی موشگافیوں اور صراحتوں سے کام لے کر جو منفی و جابرانہ اقدامات گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں ان سے وطن اور عوام جس طرح متاثر ہیں وہ اب کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں، مقتدر چیف ہو یا انصاف کا چیف، عوام اور وطن کی تائید و خواہشات کے برعکس ان کا کردار حالات کو مزید بدتر کرنے کے مترادف ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چُکے ہیں جہاں صرف کھائی ہی نظر آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے فیض حمید اور دیگر عسکری سابق عہدیداروں کے تحویل میں لئے جانے سمیت ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ و دیگر متعدد افراد کی گرفتاریوں کے بعد متوقع ظالمانہ کارروائیوں کا اصل مقصد صرف ایک ہی ہے کہ عمران خان کو سیاسی منظر نامے سے معدوم کر دیا جائے۔ دو افراد کی ذاتی پرخاش پر ملک کو ان حالات پر پہنچا دیا گیا ہے کہ جہاں نتیجہ نہ وطن کے مفاد میں نظر آتا ہے اور نہ سسٹم کے تحفظ کا یقین آسکتا ہے۔ عمران خان کا یہ جملہ کہ مجھے فیض حمید کیساتھ ملوث کر کے ملٹری کورٹ میں اُلجھانا چاہتے ہیں، بے معنی نہیں، حالات بند گلی کے آخری کنارے تک جاتے نظر آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سب حرکات اور غیر جمہوری وطیروں سے پاکستان مزید سیاسی عدم استحکام کی نذر نہیں ہوگا اور کیا یہ ملک، عوام اور جمہوریت سے ماوراء نہیں ہوگا؟ عوام کا محبوب ترین عمران اگر انتقامی حالات کا شکار ہوا تو کیا عوام کا غم و غصہ کسی طور تھم سکے گا یا پاکستان ناقابل برداشت نقصان سے دوچار ہوگا۔ بات ایک چیف تک ہی محدود نہیں، لگتا ہے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور اس امر پر عمل پیرا نظر آتا ہے کہ پاکستان اور عوام کی بہتری اور سالمیت و خوشحالی کا کوئی بھی راستہ وانہ ہو سکے، وطن عزیز بحران اور بے یقینی کا شکار رہے اور ان کا مفاداتی سلسلہ جاری رہے۔ حکومتی چیف و ذمہ داروں کا مفاد اس بات میں ہے کہ وہ مقتدرہ کے مطمع نظر اور اقدامات کے حوالے سے راگنی الاپتے رہیں اور اپنے غیر عوامی و غیر مقبول قبضہ کو برقرار رکھیں۔ انصاف کے رکھوالے چیف کے خصوصاً متنازع فیصلوں سے عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے مشکلات اور عوامی فیصلے کو نہ صرف استرداد سے دوچار کیا جانا بلکہ قادیانیت کے ایشو پر ان کے فیصلے نے ایسی آگ لگا دی ہے جس کو ٹھنڈا کرنا ناممکن نہ صحیح مشکل ترین ضرور ہے، ریڈزون میں گزشتہ سوموار کو چیف جسٹس کیخلاف احتجاج اور استعفے کے مطالبہ نے حالات کے بگاڑ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ہم گزشتہ کالموں میں اس سچائی کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ، عمران اور عدلیہ کاسہ طرفہ تنازعہ کسی بھی طرح پاکستان، سیاست اور عوام کے حق میں سود مند نہیں اور اگر یہ آگ مزید بڑھی تو اس کے نتائج نہایت خوفناک ہونگے۔ موجودہ صورتحال، فیض حمید کو عمران کیخلاف وعدہ معاف گواہ بنانے اور اس اقدام کا قصد کہ عمران کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا جائے ہرگز خود اسٹیبلشمنٹ کے بھی حق میں نہیں اور اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ تمام تر حالات اس گلی میں پہنچ گئے ہیں جس کے دوسرے دہانے پر اندھیرا ہی ہے اور اس سے بچائو کا واحد راستہ نفرت و منتفمانہ اقدام نہیں افہام و تفہیم اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مصالحت کا کردار ہے۔ بادی النظر میں یہ ممکن نظر نہیں آتا اور آنے والے وقت میں شدید ترین حالات دستک دیتے نظر آرہے ہیں۔ آنے والے دو تین ماہ بہت نازک ہیں، اللہ کریم رحم فرمائے۔ آمین۔
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد کو حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here