قربانی کا جذبہ

0
121
رعنا کوثر
رعنا کوثر

عیدالاضحی ہمارا ایک ایسا مذہبی تہوار ہے جو کہ قربانی سے شروع ہوتا ہے قربانی کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی دل میں اگر پیدا ہوجائے تو وہ اس کے اندر ہمت برداشت اور کسی کے لیے کچھ کر جانے کی امنگ پیدا کردیتا ہے۔خود غرض لوگ کبھی بھی کسی کے لیے قربانی نہیں دیتے مگر اگر کسی کے اندر یہ جذبہ ہے تو وہ غوروفکر کرنے والا ہمدرد انسان ہی ہوسکتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک ایسے ہی انسان تھے۔وہ نہ صرف غوروفکر میں رہتے بلکہ انہیں اپنی پیدائش کا مقصد معلوم کرنے کا جذبہ بھی تھا۔اسی لیے جذبہ انسانیت ان کے اندرر بذریعہ اتم موجود تھا۔اور اسی جذبہ کے تحت جب انہوںنے یہ خواب دیکھا کہ انہیں اللہ کی راہ میں اپنی پسندیدہ چیز قربان کرنا ہے تو اپنے جذبہ محبت کو لے کر وہ آگے بڑھے اور اپنے بیٹے کی قربانی دینے کو تیار ہوگئے۔ آج تک ہم اسی جذبے کو سلام کرتے ہیں اور اس کی یاد میں ایک جانور کی قربانی دیتے ہیں حلال جانور گائے بھینس بکرا یا پھر اونٹ کہنے کو تو یہ ایک جانور کی قربانی ہے مگر انسان کو یہ سکھایا گیا ہے کے قربانی یا ہمارے لئے کتنا اہم ہے۔ہر انسان جس کے اندر خود غرضی نہیں ہے کسی نہ کسی انداز میں اپنی زندگی میں دوسروں کے لیے قربانی دیتا ہے کوئی بچوں کے لیے اپنے آرام کی قربانی دیتا ہے۔ تو کوئی بہن بھائی اولاد کے لئے ماں باپ کے لئے اپنے پیسوں میں سے خرچ کرتا ہے، انسان کے اندر اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو اللہ بھی حضرت ابراہیم کو نہ آزماتا ،اس نے انسان کے اندر جذبہ قربانی رکھا ہے، تب ہی آپ کو آزمایا۔ قربانی تو ایک جانور کی ہوتی ہے جو ہم عیدالاضحی میں کرتے ہیں اکثر لوگ آج کل یہ بھی کہتے ہیں کے قربانی کی ضرورت کیا ہے وہی پیسہ کسی غریب کو دے دو یا پھر جو لوگ سبزی خور ہوچکے ہیں انہیں یہ جانور پر ظلم لگتا ہے کے اچھے خاصے جانور کو گھر میں پالو اس سے محبت کرو اور پھر بے زبان بے ضرر جانور جو کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا اسے ذبح کردو۔ لیکن ان تمام باتوں کا جواب یہ ہے کے ہم غریبوں کو پیسہ بھی تقسیم کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے پورا سال ہوتا ہے دیتے رہیں ان کو پیسے بقیہ عید کے ٹائم پر ہی یہ کیوں یاد آتا ہے۔یہ اللہ کا حکم ہے اور اگر ہم صاحب استعداد ہیں تو ہم کو یہ حکم ماننا ہے حضرت ابراہیم نے تو حضرت اسماعیل کی قربانی دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ میں اپنے بیٹے کی قربانی کے بدلے کسی غریب کے بیٹے کو پیسے دے دوں گا یا پڑھا لکھا دوں گا مجھے اتنا ہی ثواب ملے گا۔ اور جہاں تک جانور پر ظلم کا تعلق ہے تو کچھ جانور انسان کے لئے پیدا کیے گئے ہیں کے انسان انہیں کھائے اور زندگی کو خوش ہو کرگزارے صحت مند ہو۔اب اگر آپ نے یہ سوچ کر اسے اپنے اوپر ممنوع کرلیا کے یہ ظالم ہے تو یہ بھی اللہ کی پیدا کردہ چیزوں کو اپنے اوپر خود ہی حرام کرلینا ہے۔ہاں اگر بزنس مین ظلم کرتے ہیں اور اپنا پرانٹ بنانے کے لیے جانوروں کو دوائیاں دیتے ہیں عجیب طرح سے پالتے ہیں عجیب طرح سے مارکر گوشت مارکیٹ میں لاتے ہیں تو ان پر اجتماع کریں۔اور گوشت نہ کھائیں مگر ایک جانور کی قربانی جو ہم اللہ کے نام پر کرتے ہیں وہ ظلم نہیں ہے وہ جانور ہمارے کھانے پینے کے لیے ہی بنایا گیا ہے وہ ایک انسان کے فائدے کے لیے ہے اس لیے اس کی قربانی کوئی ظلم نہیں ہے۔
حضرت ابراہیم ایک پیغمبر تھے ایک نبی تھے جن کو تمام دنیا کے لوگ عزت دیتے اور مانتے ہیں چاہے وہ یہودی ہوں عیسائی ہوں یا مسلمان ہو تو وہ ظلم کا کام کیسے کرسکتے ہیں ان کے عمل کی یاد میں ہی قربانی کی جاتی ہے۔اس لئے بحث سے اجتناب کرکے اس عمل کو قائم رکھیں اور بقر عید آنے سے پہلے اپنے بچوں کو اسی کی اہمیت بتائیں تاکے وہ بھی جوش اور جذبے کے ساتھ اس فریضے کو ادا کریں۔
جیسا کے میں نے پہلے کہا قربانی ہمیں برداشت سکھاتی ہے۔کسی کو کھو دینے کا حوصلہ دیتی ہے اور ہمار دل بڑا کرتی ہے اس لیے عید قربان پر قربانی کرنے سے گریز نہ کریں عید کے گزر جانے کے بعد آپ اپنے اندر عزم ہمت اور حوصلہ پائیں گے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here