یہ لیجئے ! جس بات کا خوف تھا اب وہی بات آتی نظر آرہی ہے، سیاسی اختلافات کو انفرادی نہج پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میرے چند دوستوں نے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اُنہوں نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ اگر میں اُن سے اپنی دوستی کو برقرار رکھنا چاہتا ہوں تو مجھے مسلم لیگ (ن) یا پی ڈی ایم کے تمام رہنماؤں کی تہہ دِل سے تعظیم کرنا پڑیگی، اُنکے نام کی ادائیگی سے قبل محترم یا محترمہ لگانا پڑیگا۔
مجھے یہ کبھی بھی نہیں کہنا پڑیگا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت اِمپورٹڈ ہے، اور نہ ہی مجھے یہ کہنا پڑیگا کہ پاکستان مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اپنے دور حکومت میں مال بنایا تھا ، اور اُس لوٹی ہوئی دولت سے اُنہوں نے لندن میں قیمتی اپارٹمنٹس خریدے تھے اور اِس نیک کرتوت کی وجہ کر اُن کا نام پاناما پیپرز میں شائع ہوا تھا. مجھے یہ بھی نہیں کہنا پڑیگا کہ لوٹوں نے پاکستان میں ایک بھونچال لے آیا ہے اور وہ ملک و قوم کے غدار ہیں.مجھے ہمیشہ یہ راگ اُلاپنا پڑیگا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت خدا کی ایک عطا کردہ تحفہ ہے، اور جس کی وجہ کر آج پھر پاکستان ایک محفوظ مقام پر پہنچ گیا ہے. سابق وزیراعظم کے دور میں پاکستان ایک غیر محفوظ ہاتھ میں تھا. مجھے ہمیشہ یہ کہنا پڑیگا کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، خوشحال ہے اور ایسی کوئی بات نہیں کہ سری لنکا کی طرح پاکستان کے وزیراعظم بھی اِسے دیوالیہ قرار دے دیں۔پاکستان میں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی ہے اور وہاں کی اکثریت ائیر کنڈیشن کمرے میں سوتی رہتی ہے، خوردونوش کی چیزیں انتہائی سستی ہیں، بلکہ مفت مل جاتیں ہیں ، آپ خود جاکر درختوں سے توڑ لیں، میں لوگوں کو یہ بھی کہوں گا کہ پاکستان میں کوئی فوری طور پر انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں اگر وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو زبانی ووٹ کے ذریعہ پانچ سال حکومت کرنے کا موقع دے دیا جائے تو اِس میں کیا غلط ہے؟ انتخاب کرانے پر پاکستان کا صرف سرمایہ ضائع ہوگا، کیونکہ پھر تین ماہ بعد عدم اعتماد کے ووٹ کی نوبت آجائیگی،میں نے اپنے پی ڈی ایم اور مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کی شکایت اور شرائط کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے خارج کر دیا . مجھے علم ہے کہ اگر میں اُنہیں کھانے پر مدعو کر دوں تو وہ دوڑتے دوڑتے حاضر ہو جائینگے بلکہ یہ بھی کہہ دوں کہ میں نے مینگو لسّی سے تواضع کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے تو شاید وہ اپنی پارٹی سے وابستگی کو تبدیل کرنے پر بھی راضی ہوجائیں۔
ازراہ کرم اُن دوستوں سے میں نے یہ پوچھ لیا کہ آپ کے وزیراعظم شہباز شریف صاحب کہاں سو رہے تھے جب کراچی میں بارش کی پیشگوئی کی گئی تھی اور نالے کی صفائی نہ کرنے کی وجہ کر سیلاب آگیا تھاجس میں درجنوں معصوم بچوں اور دوسرے افراد موت کی آغوش میں سوگئے تھے، کیا کراچی کے باشندوں کی جانوں کی حفاظت کرنا اُنکے فرائض میں شامل نہیں ، بہر کیف وہ پاکستان کے سارے عوام کے وزیراعظم ہیں. ٹھیک ہے اُنہوں نے متوفی کے لواحقین کو دس دس لاکھ روپے بطور امداد دینے کا وعدہ کیا ہے ، لیکن یہ رقم اُن کی قیمتی جانوں کی ضیاع کے مقابلے میں بہت کم ہے.اُن میں سے ایک دوست نے جواب دیا کہ عملی طور پر شہباز شریف صرف اسلام آباد کے وزیراعظم ہیںجب وہ سندھ میں داخل ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو وہاں کے وزیراعلی مراد علی شاہ کا فرمانبردار ہنو مان سمجھنے لگتے ہیں، وہ بجائے اُن سے یہ پوچھنے کہ کیوں نہیں نالے کی صفائی کی گئی تھی وہ اُنہیں یہ لقمہ دیتے ہیں کہ نالے کی صفائی عمران خان کے دور حکومت میں ہونی چاہیے تھی لہٰذا کراچی کے عوام سابق وزیر اعظم عمران خان سے بازپرس کریں ، دوسرے دوست جو شہباز شریف کے بہت بڑے چمچے ہیں ،میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم صاحب سیلاب سے متاثرین کیلئے امدادی پیکج کا جلد اعلان کرنے والے ہیں ، وہ صرف دوسرے سیلابی ریلے کا انتظار کر رہے ہیں، کیونکہ یہ موسم سرما کا دور ہے ، بارش ہوتی رہیگی اور سیلاب آتا رہیگا اور مزید لوگ اُس سے متاثر ہوتے رہیں گے لہٰذا وہ تمام متاثرین کو یکمشت مکان بنانے کیلئے زمینیں الاٹ کرینگے لیکن اِس سے قبل اُن کی حکومت کا دھرن تختہ نہ ہوجائے، میرے دوست نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ میں بجائے یہ کہنے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دور حکومت میں سینکڑوں لوگ پاکستان میں سیلاب کی زد میں آں کر ہلاک ہوگئے میں یہ کہوں کہ اُن کے دور حکومت میں اﷲتعالیٰ نے پاکستان کو بارش کی نعمت سے نوازا ہے اور پاکستان خشک سالی سے بچ گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے حامی ایک اور دوست پر برستے ہوے مجھے کسی پس و پیش کا سامنا نہیں کرنا پڑا، میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیسی اندھیری نگری چوپٹ راجا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ببانگ دہل اعلان ہو رہا ہے کہ آئندہ سال پاکستان میں شرح مہنگائی میں 20 فیصد تک اضافہ ہو جائیگا. اگر اسٹیٹ بینک کی پیشگوئی 20 فیصد ہے تو حقیقی معنوں میں چیزوں کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے،اِن حالات میں پاکستان کا محنت کش درمیانہ اور نچلا طبقہ کس طرح زندہ رہ سکتا ہے؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایک کثیر الجہت غذائی بحران کی قلت کا خدشہ منڈلا رہا ہے ، وزیراعظم شہباز شریف تاہنوز اِس مہنگائی کے سونامی سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل پیش نہیں کیا ہے ، وہ صرف ضمنی الیکشن جیتنے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں، میرے دوست نے جواب دیا کہ اسٹیٹ بینک میں ملک کی معشیت پر پیشگوئی کرنے والے سارے ماہرین عمران خان کے بھرتی کئے ہوے ہیں ، اور وہ عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔