محسن داوڑ قبائلی علاقہ جات کے پڑھے لکھے رکن قومی اسمبلی ہیں، ان کا شمار قبائلی علاقہ جات کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو اختیار کی بجائے زبان سے حقوق مانگنے پر یقین رکھتے ہیں، ان کی غیرمسلح تحریک نے پاکستان کے سیاسی نظام میں ایک ہلچل پیدا کر رکھی ہے، عدم تشدد پر یقین رکھنے والے محسن داوڑ اور ان کے ساتھی پاکستان کے نظام کو کنٹرول کرنے والی طاقتوں کے سامنے دلیل کی طاقت کا سہارا لیے آج بھی اصولی بات کرنے والے لشکر کا حصہ ہے۔
پاکستان میں تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے حکومتی معاہدے کے بعد ان کا ایک ٹویٹ متقاضی ہے کہ ہم ریاست پاکستان کو نظریہ ضرورت والے ڈرامے سے آزاد کرائیں، محسن داوڑ نے اپنے ٹویٹ میں اس بات کا اظہار کیا کہ تحریک لبیک پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ معاہدہ ان رویوں اور طرز عمل کو تقویت دے رہا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی او لوگوں کی جان و مال کو نقصان سمیت پرتشدد کارروائیوں میں ملوث عناصر قابل معافی ہیں۔محسن داوڑ کے اس ٹویٹ کے بعد ان کے ساتھ جو سلوک ہوا سو ہوا مگر اس موضوع پر بات کرنے والا کوئی شخص رسوا نہ ہو ممکن نہیں کیونکہ ہم نے اپنے ملک کو نام نہاد ملاں، سیاست پر قابض رہنے کے خواہشمند جرنیلوں، کرپٹ سیاستدانوں اور پاکستانی عوام کی چمڑی اُتارنے والے چند عناصر کے حوالے کررکھا ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اسلام اور پاکستان دونوں ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ ایسی خود غرض اور شرپسند باتوں کے نظریات سے اختلاف کا مطلب ملک مخالف طاقتوں کے ایجنٹ ہونے سے لیکر غدار وطن تک نکلتا ہے جس کی تازہ ترین مثال ہمیں ایک ہفتہ قبل تحریک لبیک پاکستان یہ اوپر لگنے والے اس الزام کی صورت میں نظر آتی ہے جب حکومتی وزرا نے سرعام بیانات دیئے کہ یہ تنظیم بھارتی اشاروں پر ناچ رہی ہے، ایک ہفتے بعد وزیر اعظم ان کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں، غرض کہ باندھ کر جھوٹ بولو، کوئی عہدے کا اخلاقیات سے لینا دینا نہیں اور بے شرموں کی طرح جب چاہیے غداری اور دشمن عناصر کا عبادہ اتار کر حب الوطنی کا لبادہ پہناوا دو، ان بے حس عناصر کو کوئی سروکار نہیں کہ عوام کو جس پریشان حالی کا سامنا رہا، ملک کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا،اس کا کیا ہوگا،اس صورتحال میں محسن داوڑ کا یہ ٹویٹ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا کے مترادف ہے۔تحریک طالبان پاکستان کو بنانے کا کریڈٹ تو ہم کئی برس قبل اپنے نام کروا چکے ہیں، مگر تحریک لبیک پاکستان کو بنانے والے اور اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے آج بھی طاقت کے ایوانوں میں موجود ہیں، یہ وقت کا انتقام تھا کہ جن طاقتوں نے اسلام کے نام پر اس تنظیم کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا آج ان کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ آج اس تنظیم کے بدن سے کپڑے اتاریں گے تو یہ خود کپڑوں میں نہیں رہ سکیں گے۔مگر ایسا کب تک ہوتا رہے گا، وطن بھی نوچا جارہا ہے اور ساتھ عوامی حقوق کا خون بھی چوسنے کی مشق برابر جاری ہے۔پاکستان میں مذہب کا سہارا لے کر سیاست کرنے اور کروانے والوں کو اب صرف اتنا احسان کردینا چاہیے کہ ہر گھر کے سامنے ایک پھانسی گھاٹ بنا دیں تاکہ ان کے ذاتی مفادات کے باعث اذیت اور پریشانی کا شکار ہونے والوں کو کچھ تو کرنے میں آسانی میسر آئے۔
٭٭٭