ڈالر کی اُڑان!!!

0
82
مجیب ایس لودھی

کسی بھی ملک کی کرنسی اس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے اور کرنسی کو مضبوط بنانے کے لیے معاشی پالیسی ترتیب دی جاتی ہے ، اقتصادی ماہرین کے مطابق چین ، بھارت اور برازیل جیسے ملکوں میں متوسط طبقہ وسیع ہوتا جا رہا ہے لیکن امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگ آج کل مہنگائی سے پریشان ہیں ، آخری بار 1970ء کے عشرے میں جب افراط ِزر کی لہر آئی تھی تو قیمتیں اور اُجرتیں بہت بڑھ گئی تھیں، اس بار اگرچہ سرکاری طور پر افراط ِ زرکی شرح زیادہ ہے جس کی وجہ سے کھانے ،پینے اور ایندھن جیسی عام ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر معاشیات ڈینی لیپیزجیر کے مطابق تمام عوامل اشیا کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
فیڈرل ریزرو کے مطابق کرنسی کی گردش میں 226.3 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا، یعنی امریکہ کی کرنسی کا 20 فیصد ایک سال میں چھاپا گیا ہے جبکہ وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ قیمتوں میں اضافے کے باعث امریکی افراط زر گزشتہ 13 سالوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے ۔قرض کی بلند ترین سطح ، افراط زر یعنی ڈالر کی چھپائی میں اضافے سے ا مریکہ کی کرنسی اہم خطرے سے دوچار ہوگئی ہے جوکہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے ۔
کرنسی کی جنگ سب سے زیادہ تباہ کن اور خوفناک نتائج کی حامل ہوتی ہے ، ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے اور اب ایک مرتبہ پھر امریکہ پر اس کے اثرات نمایاں ہیں ، کاغذی نوٹ گر گئے ہیں، اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، اور سرمائے کو قابو کیا جا رہا ہے ۔ امریکیوں کی قوت خرید مسلسل کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ان کا “ریٹائرمنٹ کا خواب” برباد ہو رہا ہے۔ تقریباً 100 ملین امریکیوں کی عمریں 50 سال یا اس سے اوپر ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ کی بچت اب ایک سنگین غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ ان کی محنت سے کمائی گئی بچت دن بدن کم قیمتی ہوتی جا رہی ہے۔مہنگائی کی شرح 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔مارکیٹ واچ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جارج ڈبلیو بش کے دور حکومت 1991 کے بعد سے پہلی مرتبہ مہنگائی میں 4.2 سے 4.3 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، سینٹرل بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح میں ہر سال اعشاریہ دو فیصد کے حساب سے اضافہ ہور ہا ہے جس کو روکنے کے لیے معاشی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ۔نیویارک میں معمولات زندگی چلانا ایک چیلنج بن کر رہ گیا ہے ، ہر خاندان اپنی روز مرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کی دوڑ میں مگن ہے ، گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس میں موسم سرما کے دوران مزید اضافے کی توقع کی جا رہی ہے ، گیس سٹیشن پر قیمتیں بڑھنے سے دیگر ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں بھی خود بخود بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں جس سے متوسط خاندانوں کومسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ افراط زر کے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ جولائی میں امریکہ میں پٹرول کی قیمتوں میں گزشتہ ماہ کے مقابلے میں2.4 فیصد اضافہ ہوا جو کہ 12 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔حکومت کی پیش گوئیوں کے مطابق سال کی چوتھی سہ ماہی میں تیل کی قیمت تقریبا 12 فیصد کمی کے ساتھ اوسطا 2.82 ڈالر فی گیلن رہنے کا امکان ہے۔بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق تیل کی عالمی طلب میں رواں سال پہلے کی پیش گوئی کے مقابلے میں سست رفتاری سے اضافہ متوقع ہے ، جون میں شمالی امریکہ اور یورپ میں نقل و حرکت میں اضافے کے ساتھ طلب میں اضافہ ہوا۔بائیڈن حکومت کو اب اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ، ڈالر کی قدر میں اضافے کے لیے اس کی چھپائی کے عمل کو ممکنہ حدتک کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افراط زر میں کمی لائی جا سکے ، عام شہریوں کی قوت خرید میں اضافے سے صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے جبکہ پٹرول کی قیمتوں میں استحکام بھی صورتحال کو قابو کرنے میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here