صحافت…غداری…!!!

0
123
شمیم سیّد
شمیم سیّد

صحافت وطن عزیز میں آزاد کبھی نہیں رہی۔ چند وقفے تاہم آتے رہے جنہوں نے اس کے بے باک ہوجانے کا تاثر پھیلایا۔ مبینہ بیباکی کے دنوں میں بھی چند اہم ترین موضوعات پر لیکن دیانت دارانہ سوالات اٹھانے کی سہولت کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ جن موضوعات سے گریز ہوتا ہے انہیں قومی سلامتی کے خیمے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خیمہ پھیلتا ہی چلاجارہا ہے۔
صحافی عمران ریاض خان کے سوشل میڈیا پر فالوئرز کی تعداد پچاس لاکھ بتائی جاتی ہے اور بقول شخصے اس نے اپنے کسی وی لاگ میں کہا ہے کہ اس کی آمدن پندرہ کروڑ روپے ہے، جو اگر ہے تو یقینی طور پر سالانہ ہی ہوگی اب جس شخص کی سالانہ آمدن پندرہ کروڑ روپے ہے اور جو سوشل میڈیا پر جو چاہے اپ لوڈ کرسکتاہے اسے کیا ضرورت ہے کہ ملک کے پانچ چھ بڑے ٹی وی چینلوں میں سے کسی ایک پر لازمی طور پر روزانہ کی بنیاد پر پروگرام بھی کرے؟ اس کے پاس تو اپنے وی لاگ کو چلانے کیلئے اتنا سر کھپانا پڑتا ہوگا کہ کسی اور کام کی اسے فرصت نہ ہوتی ہوگی۔ لیکن عمران ریاض سمیت بہت سے ٹی وی اینکر ایسے ہیں جنھیں لانچ ہی اس مقصد کیلئے کیا گیا ہے کہ بقول بشری پنکی جو بھی آپ کی مرضی کے خلاف بات کرے اس کے خلاف غدار کا پراپیگنڈہ شروع کردیا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ ٹی وی چینلوں پر سیاسی پروگراموں کے حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کیلئے تما م اسٹیک ہولڈروں سے مشاورت کرکے ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دے کہ عام آدمی کو زہریلے پراپیگنڈے سے بچایا جا سکے اور معاشرے کے امن و سکون کو یقینی بنایا جا سکے کیونکہ اگر اس شتر بے مہار کو نکیل نہ ڈالی گئی تو جس طرح سیالکوٹ اور خیبرپختونخوا میں توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر نوجوانوں کو سرعام قتل کیا گیا تھا، عین اسی طرح پراپیگنڈے کے زور پر سیاسی مخالفین کو سولیوں پر چڑھانے کا رواج جڑ پکڑسکتا ہے ۔ اس ناسور کو جس قدر جلد ممکن ہو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔
صوبائی وزیر قانون ملک احمد خان نے کہا ہے کہ عمران ریاض خان کو اٹک اور راولپنڈی ڈویژن سے گرفتار کیا گیا ان کو پنجاب کی حدود سے گرفتار کیا گیا ان پر پنجاب میں مقدمات درج ہیں دوسری طرف عمران ریاض کی گرفتاری پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ روز اٹک سے اینکر پرسن عمران ریاض خان کو حراست میں لئے جانے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کوئی بھی درخواست کسی بھی وقت آئے ہم سننے کے لئے تیار ہیں۔ دوران سماعت عمران ریاض کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت عالیہ نے ان کے موکل کو گرفتار نہ کرنے کے واضح احکامات دیئے تھے، پولیس نے انہیں گرفتار کرکے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ اٹک کی مقامی عدالت نے اینکر عمران ریاض کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔اٹک کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے اینکر عمران ریاض کے کیس سے متعلق رات کو ہونے والی سماعت پر محفوظ فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے عمران ریاض کو کیس سے ڈسچارج کرتے ہوئے فوری رہائی کا حکم دیا۔عدالت نے عمران ریاض کو کیس سے ڈسچارج کرنیکا 8 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ اینکر عمران ریاض کسی اور مقدمے میں گرفتار نہیں تو انہیں رہاکیاجائے۔اٹک پولیس نے اینکر عمران ریاض کوگرفتارکر کے 3 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی، گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران ریاض کی گرفتاری سے متعلق درخواست نمٹاتے ہوئے ان کے وکیل کو لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
رواں صدی کے آغاز میں ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا متعارف ہوا تو عوام اس گمان میں مبتلا ہوگئے کہ اب ہر موضوع ٹی وی سکرینوں پر کھل کے بیان ہونا شروع ہوگیا ہے۔مگر جو آزادی میسر رہی اسے سیاستدانوں ہی کو چور اور لٹیرے ثابت کرنے پر مرکوز رکھا گیا۔2007 میں عدلیہ بحالی کی تحریک شروع ہوئی تو اس کی براہِ راست اور طویل کوریج نے ”ریاست ہوگی ماں ”والا خواب دکھایا۔ افتخار چودھری صاحب بالآخر اس تحریک کی بدولت اپنے منصب پر لوٹے تو خو د کو مسیحا ثابت کرنے کی ٹھان لی۔ میڈیا نے ان کی مسیحائی کا بھرپور ساتھ دیا۔ افتخار چودھری کی بحالی والی تحریک کے دوران ہی اسلام آباد میں لال مسجد والا واقعہ بھی رونما ہوا تھا۔ اسے جس انداز میں ہماری سکرینوں پر دکھایا گیا اس نے قومی سلامتی کے نگہبان اداروں کو مزید پریشان کردیا۔ٹی وی سکرینیں ان کو معاشرے میں خلفشار پھیلاتی نظر آئیں۔ اسی باعث فیصلہ ہوا کہ پاکستان میں دین کے نام پر فروغ پاتی دہشت گردی پر قابو پانا ہے تو میڈیا کو راہ راست پر لانا ہوگا۔ اس ہدف کے حصول کیلئے جنرل مشرف نے ایمرجنسی پلس کا اعلان کرتے ہوئے چند چہروں کو سکرینوں سے غائب کردیا۔ نیک چلنی کے وعدوں کے ساتھ بالآخر براہ راست نشریات کی اجازت ملی۔جو صحافی غدار ٹھہرائے گئے انہیں ہمارے محب وطن قرار پائے صحافی قابل نفرت وحقارت سے اپنے پروگراموں میں زیر بحث لاتے رہے۔ ان کی تصاویر مسلسل ٹی وی سکرینوں پر دکھائی جاتیں۔ عام پاکستانی کو اشتعال دلانے کی یہ ظالمانہ کاوش تھی۔ اسے روکنے کے بجائے ریاستی سرپرستی سے نوازا گیا۔ تحریک انصاف نے بھی اس ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جو صحافی اس جماعت کے بیانیے پر دیانت دارانہ سوالات اٹھاتے انہیں سوشل میڈیا کی حرکیات وپلیٹ فارموں کا مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے روبرو لفافے ثابت کردیا گیا۔کسی بھی نظریہ کے شدید ترین پرچارکا صحافی کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ جو لکھ اور بول رہا ہے دیگر نظریات رکھنے والوں کو ہضم نہیں ہوگا۔ ردعمل آئے گا۔ایسے ردعمل کیلئے وہ ذہنی طورپر تیار ہوتا ہے۔تحریک انصاف نے مگر اپنے ناپسندیدہ صحافیوں کو روایتی ہی نہیں سوشل میڈیا پر بھی تواتر سے جھوٹی سچی تصاویر دکھاتے ہوئے بکائو کے علاوہ غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث بھی دکھانا شروع کردیا۔ ان کے بچے سکول جاتے ہوئے اس کی وجہ سے خوفزدہ محسوس کرنا شروع ہوگئے۔چند صحافیوں کی معاشی اور معاشرتی مشکلات سے کہیں بڑھ کر لفافہ سازی کے رحجان نے بالآخر میڈیا کو بحیثیت مجموعی عوام کیلئے ناقابل اعتبار بنادیا۔ صحافت اپنی ساکھ کھوچکی ہے۔اس کی تلافی اب ممکن ہی نہیں رہی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here