اسلام آباد (پاکستان نیوز)ملک میںجاری سیاسی محاذ آرائی نے ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے ، سوشل میڈیا پر تیسری قوت کے آنے کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے جبکہ حکومت نے اپوزیشن کے جلسوں کا جواب بھی جلسوں سے دینے کا فیصلہ کیا ہے ، جس سے ملک میں انتشار مزید بڑھا ہے، اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہبا زشریف نے تجویز دی ہے کہ اگر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو پانچ سال کے لیے قومی حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے ، نجی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو چھوڑ کر پانچ سال کے لیے قومی حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘میری اپنی یہ رائے ہے کہ اگر ن لیگ کو موقع ملتا ہے تو ہمیں پی ٹی آئی کے علاوہ ایک نیشنل گورنمنٹ بنانی ہو گی جو پانچ سال مل کر، سر جوڑ کر، ملکی مسائل حل کرے۔ اس کے بعد ایک سٹیج سیٹ ہو جائے گا۔شہباز شریف نے واضح کیا کہ قومی حکومت کی تشکیل ان کی ذاتی رائے ہے۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف اور ہماری پارٹی کا موقف یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ضروری قانون سازی اور فیصلے کر کے عام انتخابات ہونے چاہیئں،’ابھی اس معاملے پر پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور دیگر سے مشاورت کرنی ہے جس کے بعد فیصلہ اجتماعی بصیرت سے ہو گا۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کا کہنا ہے کہ حکومت کے پندرہ سولہ ارکان قومی اسمبلی ٹوٹ گئے ہیں اور ان میں سے بیشتر اپوزیشن کے پاس ہیں۔انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی بھی کوشش کر لیں اور اپنے ناراض ارکان کی بات سنے اور انھیں منانے کی کوشش کریں۔ان کا کہنا تھا کہ کسٹڈی 10،12 ارکان کی ہو گی، باقی تو سب باہر گھوم رہے ہیں۔پاکستان کے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کو جلسوں کے بجائے اپنے لاپتہ اراکین اسمبلی کو تلاش کرنا چاہیے 10 لاکھ لوگ کس لیے اکٹھے کرنے ہیں۔یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے جب ملک کی اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا چکی ہیں اور سیاسی ہلچل کے دوران حکومتی وزرا، اتحادیوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ان کے رکن کیوں نہیں ملتے چند کی ملاقات تو مجھ سے ہوئی ہے اور کچھ مجھے لاہور میں بھی ملے ہیں۔ ‘یہ سب اپوزیشن کے پاس ہیں اور وہ ووٹنگ والے دن اسمبلی میں ہی آئیں گے۔ انھوں نے حکومت کی جانب سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر جلسہ کرنے پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت جلسوں کا کام کرے تو اس کا نقصان خود حکومت کو ہوتا ہے۔چوہدری پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ تاریخ کے اندر ہمارے لیے سبق ہوتے ہیں کہ جن چیزوں سے پچھلی حکومتوں کو نقصان ہوا تھا موجودہ حکومتیں اس سے خود کو دور کر لیں۔انھوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بے شمار جلوس نکالے تھے مگر انہوں نے جواباً کبھی جلوس نہیں نکالے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘شیخ رشید کہتے ہیں کہ 25 مارچ کے بعد سب کچھ تبدیل ہو جائے گا پتہ نہیں ان کے پاس کیا ہے؟وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کس دن ہو گی، یہ تو آئندہ آنے والے دنوں میں ہی معلوم ہو گا مگر اس دوران ہونے والی ‘نمبر گیم’ میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کا کردار نمایاں ہوتا جا رہا ہے، ق لیگ کی غیر موجودگی میں اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان ایک اور اہم اتحادی کے پاس پہنچے جن کی جانب سے بھی اب تک حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ تو نہیں کیا گیا لیکن ساتھ دینے کا بھی کوئی واضح اعلان نہیں ہوا۔متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اپوزیشن کے رہنماؤں سے ایم کیو ایم قیادت کی ملاقات پارلیمنٹ لاجز میں ڈاکٹر خالد مقبول کی رہائش گاہ پر ہوئی جو ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔اعلامیے کے مطابق اس ملاقات میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان، شاہد خاقان عباسی اور عبدالغفور حیدری اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔