حکمرانوں کا کہنا ہے کہ جب سے نئی حکومت آئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں۔ مہنگائی کو دیکھ کر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ سب روایتی بیان بازیاں ہیں۔ مہنگائی نے غریبوں کا بھْرکس نکال دیا ہے۔ ہر چیز کی قیمت دوگنی ہوگئی ہے۔ تعلیم پرائیویٹ اور مہنگی کر دی گئی ہے۔ روزمرہ کی اشیاء بہت مہنگی ہوچکی ہیں۔ تیل ، بجلی ، گیس کی قیمتیں تین گنا بڑھ چکی ہیں۔ ہر روز چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ادویات کی قیمتیں چار گنا بڑھ چکی ہیں۔ جب مہنگائی بڑھے گی تو اوورسیز پاکستانی اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کو روزمرہ کی خریداری اور ادویات کے لئے مہنگائی کے حساب سے پیسے بھیجیں گے جس سے زرمبادلہ بڑھے گا۔ اس میں حکومت کا کوئی کمال نہیں، مہنگائی سے تنگ مجبوراً لوگ پیسے زیادہ بھیج رہے ہیں جس کو ترقی اور گْڈ گورننس ظاہر کیا جارہاہے۔ ہر مْصیبت کو پْرانے حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال کر ریاست مدینہ کی کامیاب پالیسی تصور کیا جارہاہے۔ ”قوم کا درد”رکھنے والاعوام دشمن مافیا ہمیشہ سے برسراقتدار رہاہے۔ وحشت ناک، دردناک اور عبرت ناک عذاب میں مبتلا کرنے والا سفاک مافیا قومی اسمبلی ، سینٹ اورProvences اسمبلیز میں مہنگائی پر جھوٹ واویلا مچاتے ہیں۔ یہ وہ بد تہذیب عناصر ہیں جنکی وجہ سے قوم درد میں مبتلا ہے۔ اور یہ اسمبلی میں کھڑے ہوکر کس ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ وہ گدھ ہیں جنہوں نے ہر دور میں، ہر حکمران کے ساتھ ملکر عوام کو عذاب میں مبتلا کر رکھاہے۔ چینی: شوگر ملیں کن کی ہیں، زرداری ، شریف ، جہانگیر ترین ، خْسرو بختیار کی۔ دودھ پاکستان میں بہت مہنگا اور ملاوٹ شدہ مل رہاہے جو مضر صحت ہے۔ دودھ مہنگا ہونے کے پیچھے شریف بدمعاش ہیں جو پورے پنجاب کے دودھ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ہندوستان ہمارا پڑوسی اور ہم سے سات گنا بڑا ملک ہے جہاں ہر چیز کی کھپت ہم سے سات گنا زیادہ ہے مگر وہاں دودھ ہم سے سستا اور خالص بک رہاہے۔ پولٹری : پولٹری کی قیمتیں بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ پاکستان میں ہیں جس کو ایک مافیا کنٹرول کر رہاہے۔ یہ مافیا حمزہ شہباز کے کنٹرول میں ہے۔ دالیںجو غریب آدمی کے چولہے کی ذینت ہیں ، آج کے دور میں دالیں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہیں ، ان پر بھی یہی مافیا قابض ہے۔ ریاست مدینہ کے سربراہ عمران خان صاحب اگر آپ اتنے ہی بے بس ہیں ، روزانہ ان کو نہیں چھوڑوں گا کی تسبیح پڑھتے ہیں لیکن کسی مجرم کو سزا نہیں ہوسکی۔آدھے مجرم آپکی کابینہ میں موجود ہیں۔ آدھے اپوزیشن میں موج مستیاں کررہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب عام بزنس مین کو دالیں ،چینی ،گوشت اور دودھ امپورٹ کرنے کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ان مافیاز کا توڑ کیا جاسکے۔یہ سب درندے اندر سے ایک ہیں، ہر ایک آکر دوسرے پر لعنت بھیجتا ہے۔ وہی وزیر ، وہی مشیر بندر کیطرح ایک سے دوسری اور پھر تیسری پارٹی میں ٹپوسیاں مارتی ہیں۔ ایکدوسرے کو چور کہنے والوں کی غیرت کا لیول چیک کریں تو ہر جگہ یو ٹرن اوراباؤٹ ٹرن ہی نظر آتا ہے۔ یہ وہ گدھ ہیں جنہوں نے ہر دور میں عوام کو نوچا ہے۔
وزیراعظم صاحب تین سال میں مہنگائی کنٹرول سے باہر ہے۔ غریب تعلیم سے محروم ہے۔ قانون امیر اور طاقتور کی جیب میں ہے۔ اور انصاف کی ہر جگہ دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
جس طرح دوہرا نظام تعلیم ہے۔ ویسے ہی انصاف کا دوہرا معیار ہے۔
آپکی پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے۔ جس میں چوروں کی ٹیم کو ایک ہی ٹوکری میں جمع کر کے آپ اوپر بیٹھ گئے ہیں۔
ایک سو تیس وزیر اور مشیروں کی فوج ظفر موج ہے۔
بے لگام وزیر اور مشیر مہنگائی، کرپشن اور بد انتظامی کو گزشتہ حکمرانوں کے کھاتے میں ڈالکر اطمینان دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماضی کے کرپٹ آج کے انتہائی شفاف وزیر ہیں کیونکہ اوپر بیٹھنے والا ریاست مدینہ کا والی /وزیراعظم بہت ایماندار ہے۔
وہ خود تو نہیں کھاتا لیکن کابینہ میں بیٹھے کھچروں اور گدھوں کو ہر طرف منہ مارنے کی آزادی ہے۔
یوتھیے مہنگائی اور حکومت کو تنقید پر گالی گلوچ پر اْتر آتے ہیں۔
یوتھیے ہوں یا پٹواری یا پھر جیالے۔انکے سامنے رسول اللہ کی شان اقدس میں توہین ہو،نہیں بولیں گے۔
انکے لیڈروں پر تنقید ہوتو مرنے اور مارنے پر تْل جاتے ہیں۔ آپ خود اندازہ کرلیں انکے نزدیک انکا دین اور ایمان انکے لیڈر ہیں، بہر حال ہمیں اپنی اخلاقی پستی کا جائزہ لینا ہوگا۔ سیاسی بلوغت کو معیار دیکھنا ہوگا۔ ہم سب کو قرآن اور سنت رسول اللہ سے معلوم ہے کہ شخصیت پرستی گناہ ہے، شرک ہے۔ ناقابل معافی ہے۔ اسکے باوجود ہمارا اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ گھر میں ماں باپ اور بہن بھائیوں سے پارٹی کے کرپٹ لیڈروں کی وجہ سے تعلقات منقطع کر لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسمبلی کے فلور پر لڑائی اور ایک دوسرے کو آئین کی کاپیاں ماری گئیں۔وزراء اکثر دست وگریبان رہتے ہیں۔ ہم نے زندگی میں ایسے کن ٹْٹے ڈاکٹر کو نہیں دیکھا ہوگا۔ فردوس پہلوان جو نان الیکٹیڈ مشیر ہے۔ ٹی وی کے لائیو پروگرام میں ایک مرد ایم این اے پر تھپڑ رسید کرتی ہے۔ جس کو یوتھیے ڈیفینڈ کرتے ہیں۔ عمران خان کا قریبی دوست زْلفی بخاری اربوں روپے کی کرپشن میں پکڑا گیا ہے۔ آزاد گھوم رہاہے۔ کئی convicted وزیر ،نظام حکومت کا حصہ ہیں۔ ملک میں نہ انصاف آیا نہ قانون آیا ، نہ تعلیم آئی نہ صحت کا نظام آیا لیکن ستر سال سے کبھی تلوار آئی ،کبھی تیر آیا،کبھی پتنگ آئی ،کبھی شیر آیا اور اب بیٹ آیا، سب آگئے لیکن عوام کو شعور نہیں آیا۔ جو لوگ مشرف کے ساتھی تھے وہ آج پی ٹی آئی میں ہیں۔ دس سے پندرہ منسٹر ایسے ہیں جو ہر پارٹی میں رہے، ماضی کے حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات لگا کر اپنے ہی منہ پر تھوک رہے ہیں۔
پولیس اور سیکورٹی اداروں میں اصطلاحات اور نئی ریفارمز لائیں جس میں عام آدمی کو اپنی شکایات درج کرانے کے لئے مشکلات پیش نہ آئیں۔ نئی انتخابی اصلاحات لائیں جس میں کرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر الیکشن نہ لڑ سکیں۔ لوکل کونسل سے لیکر قومی اسمبلی تک اْمیدوار کا الیکشن کے لئے اخراجات کا تعین کیا جائے تاکہ عام آدمی الیکشن میں حصہ لے سکے۔ کرکٹر ، سپورٹس مین وزیراعظم کے دور میں کھیلوں کے میدان آباد نہ ھوسکے۔ اور نہ ھی قابض مافیا سے کھیلوں کے میدان خالی کروائے جاسکے۔
ٹی وی میڈیا کا کردار انتہائی غلیظ اور گھٹیا ہے۔ آجکل پاکستانی ڈرامے انتہائی گھٹا اور فحش ڈرامے دکھا رہے ہیں جہاں ، عریانیت اوربے حیائی کی مفت تعلیم دی جارہی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ٹی وی مالکان اور لکھاری غیر مسلم ہیں جنہوں نے فحاشی کی درسگاہیں کھول رکھی ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ اچھے لوگ بھینس کیطرح ہوتے ہیں جو سوکھی گھاس کھا کر بھی دودھ دیتی ہے۔ اور بْرے لوگ سانپ کی مانند ہوتے ہیں جو دودھ پی کر بھی ڈس لیتا ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے سانپ ،اسلامی شعائر ، ھمارے تہذیب و تمدن ، نظریہ اسلامی کے برعکس قانون پاس کر رہے ہیں۔ جو ہمارے اخلاقی دیوالیہ پن کا عکاس ہے۔
گزشتہ دنوں سینٹ سے فیملیز لاء کے متعلق ایک بل پاس کیا گیا۔ جس میں مغرب تہذیب اور کلچر کا احیاء کیا گیا۔ پی ٹی آئی کیطرف سے بل پیش کیا گیا۔ جسے ن لیگ ، پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم سب نے ہی بلا چون و چرا منظور کرلیا۔ قوم کو بجٹ میں اُلجھا کر ہماری اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ محسوس یوںہوتا ہے کہ ہم بحیثت قوم زندہ لاش ہیں۔ اس بل کے تحت باپ کو بچوں کو ڈانٹے یا مارنے حق چھین لیا گیا ہے۔ باپ کے خلاف بچے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ عورت گھر میں آشنا لا سکتی ہے۔ بیٹی اپنے بوائے فرینڈ اور بیٹا اپنی گرل فرینڈ کو گھر میں لائے ، باپ سختی نہیں کرسکتا۔ ریاست مدینہ کا داعی عمران خان خبروں میں چئمپین بننے کی کوشش کرتاہے لیکن اسکی سینٹ سے بے حیائی اور بیہودگی کا بل پاس کرلیا گیا ہے۔ یو ٹرن کا ماسٹر اور ماضی کاپلے بوائے کبھی بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔ آپ کسی بھی جماعت سے ہوں آپ نے اس خاموشی کا جواب اللہ رب العزت کو ضرور دینا ہے۔ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور ہیں۔ ہم وزیراعظم کے ایک انٹرویو پر مرے جارہے تھے کہ بندہ مومن ہے لیکن اندر سے قرآن اور سنت کے خلاف نظر آرہاہے۔ سینٹ سے بل کا پاس ہونا، اسلامی نظریاتی ملک کے لئے انتہائی تباہ کْن ثابت ھوگا۔ جوہمارے خاندانی نظام کی جڑیں ہلا دے گا۔ اس بل کے خلاف صرف جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق خان بولے اور کسی کو بولنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ کیا پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ممبران سینٹ میں ایک بھی مسلمان نہیں جو اس بل پر احتجاج کرتا۔ کسی غیرت مند صحافی نے اس پر توجہ نہیں دلائی۔ صحافی حضرات کو اگر فحش ماڈل حریم شاہ کی شادی کی خبروں سے فرصت ملے تو اپنے گریبان میں ضرور جھانک لیں اور اپنے آپ سے ضرور پوچھیں کہ انکے ابا جان کے ساتھ مسلمانوں والا نام ہے یا باپ کاآخری نام ڈیوڈ یا جارج مسیح ہے۔ ؟
قارئین !جاگتے رہنا، وزیراعظم کی تسبیح اور تقاریر پر نا جائیے گا، ان کا سینٹ میں کردار پر ضرور غور کیجئے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ناچنے والا گروپ اقتدار میں آکر اللہ اور رسول اللہ کے دین کی بات کرے گا۔ یہ اندر سے اور باہر سے دوغلے نظر آتے ہیں،قوم کو خاندانی نظام پر حملہ کے خلاف اْٹھ کھڑے ہونا ہے یا بے شرمی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش رہنا ہے ؟
٭٭٭