اسکول کے زمانے میر تقی میر اور غالب کو پڑھاتھا، دونوں شعراء نے اپنے اپنے اشعار میں زمانے اور لوگوں پر طنز کے تیر برسائے ہیں۔ میر تقی میر اور اس کے بعد مرزا غالب نے سب کی توجہ سمیٹ لی تھی اور آج بھی زندہ ہیں۔ دونوں کی پیدائش آگرہ کی تھی، دونوں مغل دور کے تھے۔ 1723ء میں میر تقی میر اور 1797 میں مرزا غالب 76 سال کے فرق سے پیدا ہوئے تھے۔ میر تقی میر نے لکھنؤ ہجرت کی دہلی سے تو ایک محفل میں پوچھنے پر کہا
کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے جہاں منتخب ہی روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اس اجڑے دیار کے
اب اگر ہم پاکستان میں ہوں اور کراچی کے حالات سے دکھی ہو کر لاہور جا بسیں تو اشعار ہر پر سجتے ہیں۔ دلی تو خوش قسمت شہر تھا کئی بار اجڑا اور کئی بار بسا لیکن کراچی کی بدقسمتی کہ وہ اجڑتا ہی جا رہا ہے۔ پچھلے تیس سالوں میں ایم کی ایم اور اب پیپلز پارٹی نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور الزام ایک دوسرے پر دھرتے ہیںاور ہمارا حال یہ ہے کہ جب کراچی جاتے ہیں اور گشت لگاتے ہیںتو غالب یاد آتاہے۔
بنا کے فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
اور یہ سب کچھ اپنوں کا کیا دھرا ہے نہ صرف یہ کہ انوں نے شہر میں لاقانونیت کو عام کیا جو پہلے سے نمک کے برابر تھی بلکہ ہماری تین نسلوں کو تعلیم سے دور کر دیا اور ملازمتوں سے باہر کر دیا یہ کرنے والے کوئی اور تھے۔ جو ایم کیو ایم کو لائے تھے لیکن انہوں نے اپنے ذاتی مقاصد کیلئے یہ سب کچھ کیا، لانے والے خوش تھے۔ اس میں کچھ حصہ جماعت اسلامی نے بھی ڈالا کہ وہ کوٹہ سسٹم کیخلاف آواز نہ اٹھا سکی۔ جب کہ وہ 1973ء کی آئین سازی میں بھی شامل تھے۔ ایک نعمت اﷲ (میئر) کا دور سنہری تھا کہ کراچی کو فروغ ملا۔ اور جنرل پرویز مشرف نے بھی کراچی کیلئے بہت کچھ کیا آج کچھ لوگ انہیں طرح طرح کا خطاب دیتے ہیں اس لئے کہ اس نے کراچی کی مدد کی یہ ہی کام نواز شریف نے کیا فرق یہ تھا کہ لگایا بھی اور کھایا بھی لیکن وہ پنجاب کے ہونے کے ناطے غدار نہیں کہلائے اور انہیں قانون کا ہلکا سا چپت لگا کر جانے دیا۔ ایسا کرنیوالے بھول گئے کہ کراچی بھی انکا ہی شہر ہے جس سے ہر طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ پہلے ایم کیو ایم نے بھتہ خوری، قتل و غارت گری، قبضہ گیری کی اور اب اب ملک ریاض کے پردے میں ریٹائرڈ کرنل جنرل دیفنس سوسائیٹیاں اور بحریہ ٹاؤن بنا رہے ہیں کہ زمین کی اہمیت ان کے لئے ماں سے بھی زیادہ ہے۔ اب اس کے پس منظر میں ہم کراچی کی صورتحال اور جماعت اسلامی کی کارکردگی اور ناکامی کا ذکر کرینگے۔
جماعت اسلامی کی بنیاد مولانا مودودی نے 1941ء میں اسلامک ریفارم موومنٹ کے نام سے آزادی سے پہلے مسلمانوں کو تحفظ دینے کیلئے بنائی تھی جس کا اثر دنیا کے ہر اسلامی ملک میں تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان بنانے میں ان کا کیا کردار تھا۔ کراچی میں جماعت اسلامی کا بڑا نام تھاور مولانا مودودی کے بعد کئی نام آج بھی زندہ ہیں۔ عبدالغفور احمد، سید منور حسین اور قاضی حسین احمد نے جماعت کو اپنی محنت اور لگن سے تقویت دی۔ ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں جماعت اسلامی کو آزادی تھی بہت سے اچھے کاموں کی لیکن اسی زمانے میں ضیاء الحق کو پیپلز پارٹی کا زور ختم کرنا تھا نتیجہ میں ایم کیو ایم بنی اور نتیجہ سامنے ہے لیکن عملی طور پر وہ کوٹہ سسٹم کو ختم نہ کروا سکے۔ اس میں دونوں کا ہاتھ ہے اور اب جبکہ جماعت اسلامی کو سراج الحق کی شکل میں امیر ملا ہے وہ ہر جگہ ناکام ہے ۔ مین اسٹریم میں آنے سے دور ہے۔ جماعت اسلامی کو آج کے دور میں آج کا لیڈر چاہیے جو اصولوں کو اپنائے لیکن ساتھ مخالفین پر نظر بھی رکھے۔ نرم لہجے کی ضرور نہیں، مفاہمت پر انا ہتھیار ہے دوسرے معنوں میں سودے بازی۔ نیویارک میں گذشتہ ہفتے اور اتوار کو اکنا اور اشرف اعظمی نے کراچی سے تشریف لائے ۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے رکن انجم رفعت نے محفل سجائی اور شہر کے صحافی ، لکھاری اور داشمند طبقے سے لوگوں کو دعوت دی تھی۔ انجم رفعت صاحب نے جماعت اسلامی کیلئے اپنی گفتگو سے پرا اثر تاثر نہیں دیا۔ ان سے کئے گئے سوالوں کے جواب بھی فیصلہ نہ کر سکے کہ جماعت اسلامی اپنی کاوشوں ، ایماندار اور کراچی میں ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ رکھتے ہوئے کراچی کی مقبول جماعت کیوں نہیں اور انتخاب میں کیوں شکست کھاتی ہے۔ ان کے ذہن بہت کچھ تھا لیکن وہ کہنے سے قاصر تھے اور یہ صحیح بھی ہے کہ جب اوپر بیٹھے لوگ فیصلہ کر لیں کہ وزیر اعظم کسے بنانا ہے اور کراچی کا میئر کون بنے گا تو پھر کسی بھی ایسی جماعت کو سرکھپانے کی کیا ضرورت کہ اب فیسلہ جماعت اسلامی کا نہیں کہ وہ الیکشن لڑ کر عہدہ لے سکیں کہ قزاق پہلے ہی لے اڑتے ہیں کہ ہر شعبہ میں اپنا آدمی بٹھانے کے بعد فلم کی صنعت میں بھی ہاتھ ڈال دیا ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے پچھلے ہفتے ایک پنڈال میں فلمی صنعت کے فروغ کیلئے محفل سجا ڈالی۔ عمران خان مہمان خصوصی تھے اور نوجوانوں کو مختصر فلمیں بنانے کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے انعامات دئیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان پاکستان کی امیج کو اجاگر کریں ، بہتر طریقے سے دوسرے معنوں میں فلم پر کڑا سنسر ہو گا جو پہلے سے یہ بات آپ کینیڈا میں رہائش پذیر آشیر عظیم سے پوچھ لیں ۔ کہتے چلیں کہ دنیا میں فنون لطیفہ پر پابندی نہیں ہوتی، پاکستان واحد ملک ہے اس کے ہر شعبہ میں حاوی یہ لوگ ہیں جو اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اور عوام کی کوششوںکو مایوسی کے جال میں پھانستے ہیں تو جماعت اسلامی کے پڑھے لکھے سائنس کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے انجم رفعت کیا کر سکتے ہیں ،کیا کہہ سکتے ہیں۔ ایک تکلیف دہ واقعہ ان کے ساتھ اتوار کی شام میں اشرف اعظمی کی نجی محفل میں پیش آیا جب ایم کیو ایم کے عارف صدیقی نے کراچی کی بربادی کا باعث جماعت اسلامی کو ٹھہرایا۔ ادب کے ساتھ کیا ہم کراچی کی تباہی کا ذمہ دار عارف صدیقی صاحب یا کسی بھی فرد واحد کو ٹھہرا سکتے ہیں؟ ایک موقع پر انجم عارف نے گفتگو ختم کر دی ، اس میں محترم عابد رافع نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور محفل کے آداب بھول گئے کہ مہمان کو عزت دی جائے۔ اوپر لکھی ہوئی سب باتوں کے پس منظر میں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کی آلودگی ختم ہو گی؟