ذرا تصور کیجئے! وہ شاعرِ انسانیت ہیں ، ان کے ہاں دردمندی سی دردمندی ہے۔ انقلابی فکر کے حامل ہیں، ان کے ہاں انقلاب سا انقلاب ہے۔ شعائر اسلام کے پرچارک ہیں، ان کے ہاں اسلامی اقدار سی اقدار ہیں۔ وہ احترامِ آدمیت کے داعی ہیں، ان کے ہاں آدمیت سی آدمیت، انسانیت سی انسانیت ہے۔ وہ جمالیات کے شاعر ہیں، ان کے ہاں رومان سا رومان ہے۔ وہ میرو غالب کے پیروکار ہیں، ان کے ہاں کلاسیکیت سی کلاسیکیت ہے۔ وہ اقبال شناس ہیں، ان میں معرفت سی معرفت، قومیت سی قومیت اور جرات سی جرات ہے۔ وہ سیاسیات، ادبیات، سماجیات اور لسانیات کے خمیر میں گندھی فکر کو منثور و منظوم کرنے کے باوصف شاعرو ادیب کے علاوہ فلسفی کہلائے ہیں۔ وہ ہفت زبان شاعر ہیں، جو دنیائے ادب میں مقصود جعفری کے نام سے جلوہ افروز ہیں۔ اردو، فارسی، انگریزی، عربی، پنجابی، کشمیری اور پونچھی، سات زبانوں میں شعر کہنے والے کے ہاں ست رنگی قوسِ قزح کے جلوے ہیں جو کہ حال ہی میں منصہ!
شہود پہ آنے والی ان کی کتاب روزنِ دیوارِ زنداں سے ظاہر ہوئے ہیں۔ راول دیس کی ادبی روایت ڈاکٹر مقصود جعفری کے تذکرے کے بغیر یکسر ادھوری ہے۔ متقدمین، متوسلین اور متاخرین کی تکون کے سبھی زاویے ان کے شعرونثر میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کلاسیکیت اور جدت کے امتزاج نے ڈاکٹر مقصود جعفری کو ماضی، حال اور مستقبل سے بیک وقت جوڑ رکھا ہے۔ گویا وہ ہر ایک زمانے سے متصل ہیں اور اسی میں سانس لے رہے ہیں۔ اس لئے کہ ان زمانوں کے خالق کے ساتھ ان کا ایک گہرا ربط ہے، جس کی خوشنودی کے لئے وہ زمینِ دل کو نرم اور شکستہ کیے ہوئے ہیں
وہ تجھ کو ترے قلبِ شکستہ میں ملے گا
تو ڈھونڈتا پھرتا ہے جسے دیروحرم میں
خود، خودی، خدا اور خدائی کے موضوعات اور گوناگوں رنگ ڈاکٹر مقصود جعفری کے شعر و نثر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب مخلوق کا خالق کے ساتھ ایک خاص تعلق استوارہو جائے تو خالق مخلوق کو اپنے مقربین کا قربِ خاص ودیعت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقصود جعفری بھی باب العلم کی دہلیز پر سر جھکائے مستفیض ہو رہے ہیں اور پیہم عرفان حاصل کر رہے ہیں۔ درِ نجف سے عرفان عطا ہو جائے تو تقریروتحریر، شعرونثر اور گفتار و کردار میں تاثیر در آتی ہے جو قلوب کو تسخیر کرتی چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری کو اللہ کے مقربین کی یاد، ذکر اور عشق نصیب ہوا ہے۔ یہ ذکر، یہ درد متاعِ حیات ہے:
اک ربطِ خاص رکھتا ہوں میں پنجتن کے ساتھ
ذکرِ حسین کرتا ہوں ذکرِ حسن کے ساتھ
کنجِ قفس میں رہ کے دلِ بے ہراس رکھ
یادِ شہیدِ کرب وبلا بھی آس پاس رکھ
مجھ کو نہ مل سکا کہیں تاریخ میں نشاں
پھر کربلا کے بعد کہاں کربلا ہوئی
واعظ نمازِ عشق کے آداب اور ہیں
کب زیرِ تیغ تجھ سے بہ سجدہ ادا ہوئی۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کا واعظ کو وعظ،تلقین
اور استفہام، نمازِ عشق کے آداب کو پوری آب و تاب کے ساتھ پس منظر سے پیش منظر پر لا رہا ہے۔ نمازِ ظاہر کے سوا نمازِ عشق مقدر ہو جائے کہ جہاں خود کو خدا کے سامنے پیش کر دیا جائے اور وقت آنے پہ جان جانِ آفریں کے سپرد کرنے میں دیر نہ لگے۔ یہی نمازِ عشق کے آداب ہیں کہ جہاں قرب کے سارے زینے ایک جست میں طے ہو جاتے ہیں۔ اہل کربلا جنھوں نے نمازِ عشق ادا کی، ان کا عشق انسان کو کبھی جھکنے نہیں دیتا۔ آدمی وقت کے خداں سے ٹکرا جاتا اور ظفریاب ٹھہرتا ہے۔ مقصود جعفری نے کہا تھا:
پیشِ یزیدِ وقت مرا سر نہ جھک سکی
گردن تو کٹ گئی ہے مگر خم نہ ہو سکی
ڈاکٹر مقصود جعفری کے ہاں انسان اور انسانیت کا تصور ایک اہم موضوع کے طور پر نمودار ہوا ہے۔ انھوں نے آدمی اور آدمیت، انسان اور انسانیت کے پیچ دار سفر کوگہرائی و گیرائی سے دیکھا ہے۔وہ محبت کے پیامبر ہیں۔ ایسی محبت کہ جس کا سفر انسان سے انسان تک کا ہے۔ انھوں نے انسان کو چاہا ہے۔ اس چاہت کو ان کے ہاں عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ وہ ہمہ وقت اس محبت میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود جعفری بذاتِ خود صاحبانِ محبت میں سے ہیں، اسی لئے ان کے ہاں ادیان، مذاہب و مسالک کے بجائے انسانیت معتبر ہے۔ ان کا مطمحِ نظر محبتِ انسان ہے۔انھوں نے کسی آن کہا تھا:
میں نے حضرتِ انساں سے محبت کی ہے
یہ عبادت ہے تو پھر میں نے عبادت کی ہے
جس نے انساں کی محبت کو عبادت سمجھا
حشر تک اس کو یہاں یاد کیا جائے گا
میرے مذہب کا پوچھتے ہو کیا،
میرا مذہب ہے حرمتِ انساں۔ اس خیال کے حامل فاضل شاعر کے ہاں تعظیم و تکریمِ انسان کا تصور واضح طور پہ آشکار ہوا ہے۔ عام آدمی کا دکھ،الم اور درد حقیقت میں مقصود جعفری کا درد ہے۔ گویا انھیں دردِ انسانیت ودیعت ہوا ہے۔ وہ انسان کے درد میں جی رہے ہیں۔ یہ درد عطا ہو جائے تو واقعتا اپنے پرائے کا تصور دم توڑ جاتا ہے۔
کہتے ہیں
در بدر پھرتے ہیں یہ نانِ جویں کی خاطر
مجھ سے یہ پھول سے بچے نہیں دیکھے جاتے
درد انسان کو انساں سے ملا دیتا ہے
درد میں اپنے پرائے نہیں دیکھے جاتے
ڈاکٹر مقصود جعفری کے ہاں خوب صورت تشبیہات، استعارات و محاورات ہیں۔ انھوں نے اچھوتی اور نئی تراکیب تراشی ہیں۔ اختصار و جامعیت ایسے محاسن ان کے کلام پر دال ہیں۔ ان کے ہاں نادر تلازمے ہیں۔ ان کی فکر وفن یکسر متصل ہیں، فکروفن بین بین چلتے ہیں، یہ اتصال قاری کے جذبات کو خوب مہمیز کرتا ہے۔ دنیائے شعروادب میں روزنِ دیوارِ زنداں کا اضافہ سعید اور قابلِ تقلید ہے، جس پر جید تخلیق کار کو تہہِ دل سے تہنیت پیش کی جاتی ہے۔
٭٭٭