سابق صدر امریکا ڈونلڈٹرمپ اور موجودہ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار نے2024کے صدارتی انتخابات(جوکہ نومبر2024میں ہونے جارہے ہیں) میں ہارنے کی صورت میں خونی تحریک چلانے کی دھمکی دیدی ہے۔ اس سے پہلے امریکا میں ایسی پرتشدد دھمکی کسی امیدوار نے نہیں کی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ امریکی سیاست میں اس قسم کی گفتگو یا الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ تو پاکستان والے قارئین کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اتنا اترائیں نہیں اگر آپ 9مئی کروا سکتے ہیں تو ہمارے ٹمو بھائی بھی آپ کے امو بھائی سے بازی لے سکتے ہیں۔ اب عالمی سیات میں جمہوری انداز سیات کی بساط لپٹتی نظر آرہی ہے۔ ہارنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں انتخابات میں تو ایک ہی طرف جماعت یا قائد کی جیت ہوتی ہے تو دوسرے کو شکست قبول کرنے کیلئے تیار رہنا پڑیگا۔ پاکستان کی حد تک تو یہ بات کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے اور آتی تھی کیونکہ وہاں کی لولی لنگڑی جمہوریت میں بقول پاٹے خان کے سب چلتا ہے لیکن دنیا کی قدیم ترین جمہوریت میں ایسی باتوں کی کبھی گنجائش نہیں رہی لیکن سابق صدر نے 6جنوری2021میں کیپٹل ہل یا ہائوس آف پارلیمنٹ پر حملہ کروا کے دکھایا کہ وہ تو ایک جھل تھی اب موصوفBLOODBATHکی بات کر رہے ہیں۔ جسے ہم عامہ فہم زبان میں خونی انقلاب سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ہمیں تو یہ خوف ہے کہ کہیں اڈیالہ جیل سے یہ بڑک سنائی نادے کہ ”سانوں سرڈھوا کے توں بھی سکون نال نہیں رہ سکدا اوئے”بہرحال ایک بات تو پتھر پر لیکر کی طرح عیاں ہے کہ امریکا میں قانون کی حکمرانی ہے اگرچہ ٹرمپ نے6مئی کو پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ تو کروا دیا لیکن اس جرم کو علمی جامہ پہنانے والے سینکڑوں لوگ آج بھی جیلوں میں سزائیں بھگت رہے ہیں۔ اور ٹرمپ پر454ملین ڈالر کا جرمانہ ہوچکا ہے۔ اور جرمانہ نہ ادا کرنے کی صورت میںانہیں گرفتاری بھی کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال تو ٹرمپ خاندان کے نیویارک میں موجود بہت سارے اثاثے قرض میں جانے کا خطرہ ہے جسکے لئے نیویارک ریاست کی خاتون اٹارنی جنرل لیٹشیا جیمز کافی سرگرم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ سونے کا ٹرمپ گولڈن پلازہ نیلام کیلئے تیار ہے لیکن ابھی تلک کوئی گراھک تیار نہیں ہو رہا اس عدم دلچسپی کی وجہ ٹرمپ ک خوف نہیں لیکن نیویارک کے رٹیل اسٹیٹ والے جانتے ہیں کہ ٹرمپ کی کوئی بھی جائیداد کئی کئی بار گروی رکھی جاچکی ہے اسلئے اسے بیجنا نہایت مشکل ہوگا۔ لائق فائق وکیلوں کی فوج جس پر لاکھوں ڈالر روزانہ خرچ کرنے کے باوجود سابق صدر ٹرمپ آج تک اکیانوے مقدمات میں سے فقط تین مقدمات ختم کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب بھی ان پر اٹھیاسی مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن کی شنوائی پر باوجود استنسا کے (یعنی ٹرمپ کو وہاں ذاتی طور پر آنا ضروری نہیں) موصوف سابق صدر ہر تاریخ سماعت پر خود نفس بہ نفس پہنچتے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کے لئے کہ وہ تصویریں کھینچ کر اپنے مداحین سے پیسہ بٹوریں۔ موصوف سیاست کو بھی اپنے کاروبار کی طرح چلاتے یہاں کے انتخابی قوانین کے مطابق انتخابات کے نام پر اکٹھے کئے ہوئے چندہ کو فقطہ اپنی انتخابی مہم کے لئے استعمال کرنے کی اجازت ہے سابق صدر نے اس کے علاوہ بھی کئی قوانین کو بری طرح پامال کیا ہے۔ انتخابی قوانین کے مطابق اپنے مخالف امیدوار کو انتخابی مہم کے دوران گرفتار یا نئے مقدمات کا اندراجBAD OPTICSیا برائی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن ان جرائم کی بھی آگے چل کر پکڑ ہوگی۔ یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے کہ کوئی بھی کتنا بااثر اور طاقتور آدمی بھی قانون کی پکڑ میں آتا ہے چاہے وہ حکمران ہو یا لاکھوں لوگوں میں مقبول سیاستدان ہو قانون کی پکڑ سے کوئی بھی باہر نہیں NO ONE IS ARORE LANچاہے صدر ہو جنرل ہو وزیر ہو یا اس ملک کا رئیل اسٹیٹ ٹائیکوںTYCONدوسرے الفاظ میں جہاں کا ملک ریاض بھی ہو تو وہ قانون کی پکڑ سے بچتا نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خاص الخاص مشیروں میں سے کئی تقریباً دو تھائی لوگ جیل کی سیر کر چکے ہیں۔ کچھ لوگ جوان کی قریب ترین معاون اور ہمراز تھے وہ ٹرمپ کے خلاف وعدہ معاف بن گئے اور وہ خود جانتے ہیں کہ اگر اس بار وہ انتخابات میں ہار گئے تو پھر انکا سارا کاروبار آخر کار مٹی میں ملا دیا جائیگا۔اس مضمون کا واسطہ پاکستان کی سیاست سے نہیں۔
٭٭٭٭٭