وطن کی محبت و اتفاق ہی صحیح راستہ ہے

0
33

گذشتہ ہفتہ ہم پاکستانیوں کیلئے عجب دھوپ چھاؤں سے عبارت رہا۔ ایک فلمی گانے کے بول
عجیب ہے یہ زندگی کبھی ہے کبھی غم، کبھی خوشی کی مانند
ہماری فطرت بھی عجیب ہے، دشواریوں ، تکالیف و دکھ کے گھمبیر اندھیروں میں اگر امید یا خوشی کی ایک کرن بھی نظر آجائے تو ساری تکلیفیں بھول کر سچے پاکستانی جذبے کے ساتھ قومی افتخار و سرشاری کی تصویر بن جاتے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ ایسی ہی قومی سرشاری کا موجب بنا کہ جب ہر پاکستانی (بشمول اوورسیز) ساری پریشانیوں کو بھول کر جشن کی کیفیت سے سرشار نہیں بلکہ دیوانگی کی حد تک خوش تھا۔ ایک نہیں، دو نہیں کھیلوں کے حوالے سے پاکستانیوں کو تین کامیابیاں ملیں اور قوم حالات کے تمام جبرو پریشانیوں کو بھلا کر خوشیوں سے پھولے نہ سمائی۔ ایک جانب بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کے دفاعی چیمپئن بھارت کو دوبار شکست دے کر ورلڈ کپ حاصل کیا تو دوسری جانب قومی کرکٹ ٹیم نے تین ون ڈے سیریز میں افغانستان کی بدتمیز و جارح ٹیم کا وائٹ واش کرکے دھول چٹا دی۔ سب سے بڑی خوشی پنجاب کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم نے ورلڈ اتھلیٹکس چیمپئن شپ جیولین تھرو میں سلور میڈل حاصل کرکے قوم کو دی۔ کامن ویلتھ گیمز کے جیولین تھرو کے فائنل میں 90.18 میٹر تھرو کرکے گولڈ میڈل حاصل اور جنوبی ایشیاء میں کسی بھی کھلاڑی کے سب سے بڑی تھرو کے ریکارڈ رکھنے والے ارشد ندیم نے حال ہی میں سرجری سے گزرنے کے بعد حالیہ چمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیتنے والے دفاعی چمپئن نیرج چوپڑہ 188.17 کے مقابلے میں 187.82 میٹر تھرو کرکے محض آدھے میٹر سے بھی کم 0.35 میٹر فاصلے کے فرق سے نہ صرف سلور میڈل حاصل کیا بلکہ پاکستان کیلئے ایک نیا ریکارڈ بھی بنایا کہ ورلڈ اتھلیٹکس چمپئن شپ میں اس سے قبل کوئی میڈل نہ جیتا جا سکا تھا۔ یہاں ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ارشد ندیم کی اس کامیابی کے سفر میں خصوصاً کامن ویلتھ گیمز سے قبل حکومتی سپورٹ اسے میسر نہیں رہی اور ارشد نے اپنے طور پر ہی محنت سے منزل کو حاصل کرنے کی جدوجہد محدود وسائل سے ہی کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ متذکرہ کامیابیاں قوم کی خوشیوں اور جشن کا سبب اور قومی شناخت کا اظہار بنی ہیں لیکن کیا وطن عزیز کے موجودہ سیاسی عدم استحکام، عوام کی پریشانیوں، بجلی و غذائی اشیاء کے بحران، ڈالر کی ریکارڈ اڑان، معیشت کی بدحالی اور غیر یقینی حالات کے باعث ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کا بہتر حالات زندگی و مواقع کیلئے ملک چھوڑ کر جانے جیسے مسائل کے ہوتے ہوئے یہ عارضی خوشیاں سدباب یا مرض کا علاج ہو سکتی ہیں۔ سیاسی بے یقینی، معاشی بحران،ا داروں کی محاذ آرائی، عوام کی مشکلات کے حوالے سے تو ہم مسلسل اظہار تشویش و التماس کرتے رہے ہیں اور کئی عشروں سے اقتدار و اختیار پر قابض حکمرانوں و مقتدروں کی خدمت میں عرض کرتے رہے ہیںکہ مفادات و اغراض کا منفی اور ملک و عوام مخالف کھیل وطن عزیز کو ایک بڑھتے بحران بلکہ سول نافرمانی کی جانب نہ لے جائے۔ موجودہ صورتحال ہمارے اس خدشے کو قوی بناتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
گذشتہ ڈیڑھ سال سے سیاسی چلتر بازیاں، عوام دشمن کاروائیاں اور حقوق شہریت سے محرومی کے اقدامات تو اپنی جگہ، عوام پر مہنگائی کابوجھ، بہتر زندگی سے محروم حالات کی وجہ سے لگتا ہے حالات اب اسی جانب جا رہے ہیں جہاں حکومتی ، ریاستی و مملکتی رٹ بے معنی ہو جائے اور عوام کا صبر جواب دے جائے۔ بجلی کے بلوں میں خصوصاً حالیہ ماہ کے حوالے پہاڑ جیسا اضافہ نے محدود وسائل کے صارفین ہی نہیں بلکہ متمول افراد، کاروباری و تجارتی اداروں غرض ہر طبقہ کو حکومت و مملکت کیلئے شعلہ جوالا بنا دیا ہے۔ کراچی سے لیکر ملک کے ہر صوبے ، شہر، گاؤ ں حتیٰ کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں تک میں احتجاج و مظاہروں کا طوفان برپا ہے۔ لوگوں نے بجلی کے بل جلا دئیے ہیں، اہلکاروں پر حملے کئے، زدوکوب کیا اور احتجاج کی اس حد پر پہنچ چکے ہیں جو حکومت و ریاست کے خلاف سول نافرمانی کا راستہ بنے۔ موجودہ نگراں حکومت محدود اختیارات کی وجہ سے لیپا پوتی میں لگی ہوئی ہے جو کسی بھی طرح مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ حقیقت میں تو مسئلہ آج کا نہیں بلکہ گذشتہ بیس برسوں کا ہے جب 1994ء میں IPPs سے بجلی خریدنے کی کہانی شروع ہوئی اور انہیں سپلائی کے عوض نہیں بلکہ Capacity کی بنیاد پر ڈالرز میں ادائیگی کا معاہدہ ہوا(حکمرانوں کا اس میں کمیشن تھا) ۔ یہ ٹیرف میں اضافے کی ابتداء تھی، پھر اس میں فیول ایڈجسٹمنٹ، ٹی وی لائسنس سمیت اور رفتہ رفتہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر چودہ مزید ٹیکسز نے صارفین کا کباڑہ کر دیا۔ بجلی کی چوری، لائن لاسز اور عدم ادائیگی کی وجہ سے ڈسکوز نے ایماندار صارفین پر بوجھ ڈالر کر کمی پوری کی۔
بہرحال یہ سب تماشہ بازیاں ماضی کے ان بے ایمان خودغرض اور اقتدار کے بھوکے حکمرانوں کی چھتر چھایا میں پروان چڑھتی رہیں جن کا مقصد ہی لوٹ مار اور ملک و بیرون ملک جائیدادیں بنانا ہی تھا۔ ان لٹیروں نے گذشتہ تیس برسوں میں جو کچھ کیا اور ملک کو معاشی، معاشرتی تباہی کی جانب لے جاتے رہے ہیں۔ اس کی تفصیل ہر پاکستانی کے ذہن میں نقش ہے۔ 2018ء میں خدا خدا کرکے ان لٹیروں سے عوام کو نجات ملی اور عوامی حمایت سے عمران خان و پی ٹی آئی کو اقتدار ملا، اس دوران ملک و عوام کی بہتری و ترقی کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے، تفصیل سے اظہار کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہیں گے کہ اصل حکمرانوں کو شاید یہ سب پسند نہیں آیا اور ساڑھے تین سال بعد ہی عمران خان کو اقتدار سے محروم کرکے پی ڈی ایم کی صورت میں انہی طالع آزماؤں کو لایا گیا جو ملک کو لوٹتے کھسوٹتے رہے ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ برس میں بھی انہوں نے یہ سب کیا جس کا نتیجہ بجلی کے بلوں سے بے تحاشا اضافے تک ہی نہیں بلکہ معیشت کی بدحالی، پاکستانی ٹیلنٹ کا برین ڈرین (آئی ٹی ، کارپوریٹ سے مزدور و کسان تک)ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک ، روپیہ کی قدر میں ریکارڈ تنزلی کے ساتھ معاشرتی انحطاط و عدم برداشت کی انتہا ہے۔ نگران کابینہ کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ، حالات پر قابو پانے کا نہ اسے اختیار ہے نہ اسے مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ اختیار تو نگران حکومت کا الیکشن بھی بروقت ، شفاف و غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا نظر نہیں آتاکیونکہ یہ بھی اصل مقتدر کے ایجنڈے پر ہی ہونا ہے اور ایجنڈا ہر پاکستانی کے علم میں ہے کہ عمران کو جو عوام کا واحد رہنما و قائد ہے کسی صورت سیاسی منظر نامے سے خارج کیا جائے۔
ہم نے اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ دلوں میں مخاصمت رکھنے کو تو ہمارے دین میں بھی منع ہے۔ عمران خان کو اس وقت جس منافرت و مخاصمت سے دوچار کیا جا رہا ہے جن ذاتی روحانی، ذاتی و ذہنی اذیتوں میں مبتلا کیا جا رہا ہے، اسے قید و بند اور طرح طرح کے حربوں سے تکالیف پہنچائی جا رہی ہیں وہ مقتدر یا اصل حکمراں کے خفیہ مقاصد کیلئے تو سازگار ہو سکتی ہیں لیکن ملک میں موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال اور عوامی بے چینی و نفرت کیلئے ہرگز مثبت نہیں اور ایسی ہی صورتحال انقلاب اور سول نافرمانی کی نقیب بنتی ہے۔ ہماری ملک کے اصل ذمہ داروں سے پھر عرض ہے کہ ملک کو بچانے اورترقی و استحکام کیلئے اپنا قومی فریضہ کرتے اور حالات کی بہتری میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے عناد و سزا کے راستوں سے ہٹ کر افہام و تفہیم ، مذاکرات و اجتماعی راہ کو اپنائیں۔ عمران خان اسی ملک کا فرزند ہے اور کروڑوں عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ اجتماعیت، مشاورت اور باہم اتفاق ہی وطن کی سالمیت اور استحکام کی بنیاد ہے اور باہمی تنازعہ، افتراق اور عوامی مفادت سے انحراف سول نافرمانی و شکست و ریخت کو دعوت دیتے ہیں۔ فیصلہ انہیں کرنا ہے جو وطن کے محافظ ہیں اور اصل مقتدر بھی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here