لداخ(پاکستان نیوز) بھارتی حکام کے حوالے سے نیو یارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ لداخ کی متنازع سرحد پر چین کے ساتھ جھڑپ کے دوران بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عسکری ماہرین کے مطابق، کئی دہائیوں کے بعد ہمالیہ کے سخت سرد سرحدی علاقے میں ہونے والی اس جھڑپ میں پہلی بار اتنا جانی نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق، فوری طور پر یہ واضح نہیں آیا بھارت اس کارروائی کا جواب کیسے دے گا جب کہ چین کی فوج زیادہ طاقت ور ہے۔ اس سے قبل موصول ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان مشرقی لداخ میں جھڑپ کے نتیجے میں انڈین آرمی کے کرنل اور دو اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ پیر کی شب مشرقی لداخ کے علاقے گلوان ویلی میں ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے سلسلے میں اجلاس جاری تھا۔ بھارتی فوج کے جاری کردہ بیان کے مطابق کشیدگی کے خاتمے کے لیے ہونے والی بات چیت کے دوران جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں ایک کرنل اور دو اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارتی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ جھڑپ کے دوران چین کی فوج کا جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ اس سے قبل، اے این آئی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ جوابی کارروائی میں بھارت نے چین کے 43 سے زائد فوجی ہلاک کیے۔ ادھر، سرینگر میں بھارتی فوج کے ترجمان، کرنل راجیش کالیا نے بتایا کہ 15 اور 16 جون کی رات ہونے والی اس سرحدی جھڑپ کے دوران بھارت کے 20 فوجی ہلاک جب کہ 17 زخمی ہوئے۔ دوسری جانب چین نے بھی واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت متنازع سرحد کو عبور کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ چینی فوجیوں پر حملے کا ذمہ دار ہے۔ چینی وازرتِ خارجہ کے ترجمان زاﺅلی جیان نے منگل کو جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارتی فوج نے پیر کو دو مرتبہ سرحد کو عبور کیا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان جسمانی جھڑپ ہوئی۔ خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق بھارتی فوج کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ دونوں فوجوں کے درمیان جھڑپ میں اسلحہ کا استعمال نہیں ہوا۔ سرینگر سے وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل کے مطابق واقعہ کے بعد نئی دہلی میں وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور مسلح افواج کے تینوں شعبوں کے سربراہان سے بند کمرے میں ملاقات کی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق عجلت میں بلائی گئی اس میٹنگ میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے دوراں گلوان وادی میں پیش آئے واقعہ پر مشاورت کی گئی اور آئندہ حکمتِ عملی کے بارے میں چند اہم فیصلے لیے گیے۔ یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ کئی ہفتوں سے سرحد پر کشیدگی جاری ہے جس میں کمی کے لیے فریقین کی فوج کے سینئر رہنماﺅں کے درمیان بات چیت کا عمل بھی جاری تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ مشرقی لداخ سیکٹر میں بھارت کی طرف سے ایک سڑک اور پل کی تعمیر ہے جس پر چین کو اعتراض ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تعمیر متنازع علاقے میں ہو رہی ہے۔ تاہم بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنی سرحد کے اندر کر رہا ہے۔ بھارتی کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی عمر عبداللہ نے ایک ٹوئٹ میں صورتِ حال کو خطرناک قرار دیا ہے۔ ا±ن کا کہنا ہے کہ تناو¿ کم کرنے کے عمل کے دوران بھارتی فوج کے ایک کرنل اور دو اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا مطلب ہے کہ صورتِ حال عملاً کتنی کشیدہ ہے۔ ہفتے کو بھارت کی برّی فوج کے سربراہ منوج موکنڈ نراوانے نے کہا تھا کہ علاقے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ا±نہوں نے کہا تھا کہ چین کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ اطلاعات آئی تھیں کہ لداخ کے مقام پر دونوں ملکوں کی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کے لیے ثالثی کی پیش کش کی تھی جسے چین نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ بھارت نے بھی یہ کہا تھا کہ وہ چین کے ساتھ مل کر خود ہی اس مسئلے کا حل نکال لے گا۔ واضح رہے کہ دونوں ملکوں میں 3500 کلو میٹر طویل سرحد کی مستقل حد بندی اب تک نہیں ہوئی ہے۔ سرحدی حد بندی پر دونوں ملکوں کا الگ الگ مﺅقف ہے۔ 1962 میں سرحدی تنازع پر دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔