پاکستانی اور بھارتی تارکین وطن کی بڑی تعداد امریکہ کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے، ڈاکٹرز، انجینئرز، بینکرز اور تاجر اپنے شعبوں میں نمایاں کام انجام دے رہے ہیں لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جس میں بھارتی تارکین وطن پاکستانیوں سے کئی درجہ آگے ہیں اور وہ ہے سیاست۔ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے بھارتی نژاد کاملہ ہیرس کا نائب صدر منتخب ہونا بھارتی تارکین وطن کے لیے ایک بہت بڑا سیاسی سنگ میل ہے۔ بھارتی نژاد تارکین وطن کی امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ درجے پر نمائندگی رہی ہے۔
امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی بات کی جائے تو تقریبا 6 لاکھ پاکستانیوں میں سے لگ بھگ 60 فیصد کی عمر 35 سال سے کم ہے،ایک اندازے کے مطابق 29 فیصد پاکستانی امریکینز کے پاس چار سالہ کالج ڈگری ہے جبکہ مجموعی طور پر امریکیوں میں یہ شرح صرف 17 فیصد ہے ، پاکستانی امریکنز میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد امریکیوں سے زیادہ ہونے کے باوجود حیرت کی بات ہے کہ ہم سیاسی میدان میں اس قدر پیچھے کیوں ہیں ؟امریکہ میں پاکستانیوں کی آمد 70کی دہائی سے شروع ہوئی لیکن 80اور 90کی دہائیوں میں سب سے زیادہ پاکستانی امریکہ آئے ، عمومی طور پر بڑے شہروں نیویارک ، نیوجرسی ، شکاگو ، ہیوسٹن ، فلوریڈا سمیت امریکہ کے تمام بڑے ، چھوٹے شہروں میں آپ کو پاکستانی ملے گا ، آج مساجد کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ 1980ء میں گنتی کی چند بڑی مساجد تھیں ، آج ہماری دوسری جنریشن بڑی ہو چکی ہے ، آج ہمارے بچے علم حاصل کر نے کے بعد اپنے اپنے کاموں پر پہنچ چکے ہیں ، آج ہمارے کئی جوان بچے یا بچیاں امریکہ میں ہر ڈیپارٹمنٹ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ، آج ہم اپنے بچوں کو امریکی سیاست میں بھی دیکھ رہے ہیں لیکن ابھی یہ سلسلہ اس حد تک نہیں پہنچا جہاں اس کو ہونا چاہئے تھا۔ ہمارے بچے امریکہ کی اس سیاست تک نہیں پہنچ سکے جہاں دوسری قوموں کے لوگ پہنچ چکے ہیں ، ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کے لوگ امریکہ میں گورنر کے عہدے تک پہنچ چکے ہیں ، اسٹیٹ اور اسمبلی کے کانگریس مین یا سینیٹر بھی بن چکے ہیں۔نکی ہیلی واحد بھارتی نژاد خاتون ہیں جنہوں نے جنوبی کیرولائنا کے گورنر کے طور پر بھی دو بار الیکشن جیتا اور آٹھ سال تک اس عہدے پر فائز رہیں۔ صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں نکی ہیلی کو ایک اور اہم قومی عہدے سے بھی نوازا گیا اور انہیں اقوام متحدہ میں امریکہ کا نمائندہ مقرر کیا گیا،اسی طرح ایک اور بھارتی نژاد امریکی بابی جندل امریکی ریاست لوزیانہ کے گورنر کے طور پر دو بار آٹھ سال کی مدت کے لیے منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے 2004 میں وہ امریکی ایوان نمائندگان کے رکن بھی منتخب ہوئے جبکہ ہماری دوسری جنریشن ابھی سیاست میں داخل ہو رہی ہے ، ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہے جس کی انہیں اشد ضرورت ہے ، گزشتہ ہفتے ہماری یوتھ کو ہم نے بروکلین میں میئر کے امیدوار ارک ایڈمز کے حق میں بڑا سرگرم دیکھا ، بہت حوصلہ افزا بات ہے ، اسی طرح میئر نے دوسرے امیدواروں کے ساتھ پاکستانی نژاد نمائندوں کو ان کے حق میں ان کی ترجمانی کرتے پایا جوکہ بہت اچھا قدم ہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ جس طرح ہم دوسری قومیت کے لوگوں کیلئے سیاسی مہم چلاتے ہیں ، اب ہم پاکستانیز کو اپنے نمائندے آگے لانے ہوں گے ، ہمیں ہر شعبے میں خواہ وہ جج کا عہدہ ہو یا کانگریس مین ، سینیٹر یا میئر عہدہ ہو اب ہمیں نوجوانوں کو آگے لگانا ہوگا ، اس کام میں مقامی پاکستانی سیاسی تنظیموں کو یکجا سوچ کے ساتھ لائحہ عمل بنانا ہوگا اور دوسری مذہبی سیاسی تنظیمیں جن میں ICNA، ISNAکو ملکر اس کام میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ، ہمارے نوجوانوں میں بہت ٹیلنٹ ہے ، صرف نکھارنے اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ، ہمیں فاطمہ باریاب کی طرح درجنوں نوجوانوں کو آگے لانا ہو گا ، ہمارے سینئرز کو اس کام کی تربیت کے لیے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ، آج کا دور سوشل میڈیا کا ہے ، ہمارے بچے اس کام کو ہم سے بہتر جانتے ہیں ، ہمارا کام صرف ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ، ڈاکٹروں کی تنظیم ”اپنا”اس میں اہم کردارادا کرسکتی ہے ، جس طرح APPACکے ڈاکٹر اعجاز سیاسی مین سٹریم میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں ، ہمارا میڈیا ابھی ابتدائی مرحلے میں ضرور ہے لیکن سوشل میڈیا بہترین رو ل ادا کر سکتا ہے ، آیئے ابھی سے پلاننگ کریں ۔
٭٭٭