گزشتہ ہفتے مجھے اپنے ایک دوست کے ہمراہ نیو جرسی جانے کا اتفاق ہوا جہاں اس کی ملاقات ایک یہودی کمیونٹی کے تاجر سے تھی۔ کچھ دیر کے بعد ہم سب لوگ ایک ویئر ہاؤس پہنچے، وہاں پر سامان وغیرہ چیک کرنے کے بعد جب باہر آئے تو یہودی تاجر گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اچانک فون سنتے سنتے باہر نکلا مگر جب واپس لوٹا تو یاد آیا کہ اس کی کار کی چابی اندر رہ گئی ہے اور دروازے لاک ہو چکے ہیں۔ ہم دونوں بھی ابھی باہر ہی تھے لہٰذا بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
ہم دونوں کے چہرے پر پریشانی واضح طور پر عیاں تھی مگر اس کے یہودی دوست کے چہرے پر سکون کا سماں تھا۔ اس نے فون نکالاکسی کو کال کی اور ہمارے ساتھ گپ شپ کرنے لگا۔ چند منٹوں کے بعد کار میں ایک شخص آیا،اس کے ہاتھ میں دروازے کے درمیان گیپ پیدا کرنے کے لیے ایک آلہ موجود تھا۔
اس شخص نے ایک منٹ سے بھی کم دورانیے میں دروازہ اندر سے کھولا اور چابی نکال لی،اس کے بعد ہم دوبارہ واپس ویئرہاؤس سے یہودی تاجر کے اسٹور کی جانب روانہ ہوئے۔میں راستے میں حیرت میں مبتلا تھا، میں نے یہودی تاجر سے کہا کہ فرض کریں اگر یہ ہمارے ساتھ ہوتا تو ہماری پریشانی کا عالم کچھ اور ہوتا، گاڑی سے یہ چابی نکالنے کے لئے ہمیں کم از کم دو سے تین گھنٹے درکار ہوتے، یا ممکن ہے اس سے بھی زیادہ ٹائم لگتا، کیا وجہ ہے کہ آپ نہ صرف پرسکون رہے بلکہ پانچ منٹ کے اندر اندر آپ کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کہا کہ ہم اپنے مسائل اور پریشانیوں کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ہم نے ان تمام مسائل کی فہرست مرتب کی ہے جو کسی بھی انسان کو اس کی زندگی میں کسی وقت بھی پیش آسکتے ہیں۔میرے جوتے ٹوٹ جانے سے لے کر میری گاڑی کھو جانے تک کوئی بھی پریشانی کا حل ہم سے صرف چند منٹ کی دوری پر ہوتا ہے۔اس کے بعد یہودی تاجر اپنے اسٹور پر رک گیا جبکہ میں اپنے دوست کے بعد ساتھ واپس نیویارک روانہ ہوگیا۔میں اس کے فقرے پر غور کرتا رہا کہ ان کی کمیونٹی نے ہر پریشانی کی فہرست مرتب کر رکھی ہے اور ساتھ میں ان کے حل کا بھی بندوبست کر رکھا ہے۔اس فقرے میں ہماری ناکامی کی بڑی اہم وجہ نظر آتی ہے۔
ہم ہمیشہ کامیابی کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں، ہم نے کامیابی کے راستے میں آنے والے ان سپیڈ بریکرز کا کبھی نہیں سوچا، یہ حقیقت ہے کہ ہم کوئی چیز بھی پلان کریں تو صرف کامیابی پر ہی نظریں جمائے رکھیں گے۔ ہم نے اپنی زندگی میں آنے والی پریشانیوں اور مسائل کی کوئی بھی فہرست مرتب نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کے حل کا کوئی بندوبست کیا ہوا ہے۔ ہماری غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ہم نے کبھی انسانی زندگی میں آنے والے ممکنہ مسائل کا سوچا بھی نہیں۔ہمیں اس بات کا مکمل پتہ ہے کہ مسائل ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ہیں مگر ان کے تدارک کے لیے ہم نے مستقل طور پر آج تک کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہماری کار کی چابی گاڑی میں رہ جاتی ہے تو ہمیں اس کے لئے چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں جبکہ سمجھدار کمیونٹیز کو اس کے لئے صرف پانچ منٹ چاہئیں۔دس پندرہ سال کی اس مدت میں ہمارے چار گھنٹے اور ان کے پانچ منٹ ہمارے درمیان سالوں کا فرق پیدا کردیتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہمیں سالوں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں،یہ چھوٹا سا واقعہ ہمارے چھوٹے ذہنوں کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔
٭٭٭