قارئین وطن! اہلِ وطن کو واں یوم آزادی مبارک ہو ،بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے چوکیدار کبھی خاکی وردی میں اور کبھی سفید وردی میں ملبوس ہوتے، ڈیوٹی پر کھڑے ہونے سے پہلے سلامی دیتے ہیں، خاکی والے فوجی ہیں اور سفید وردی والے ہمارے سمندروں کے رکھوالے ہیں جن کو ہم نیوی کہتے ہیں ،گھنٹے دو کا شو بڑا شاندار ہوتا ہے، چاہے وہ فوجی دستہ ہو یا نیوی والوں کا دیکھنے میں بہت خوب لگتا ہے ،اِس بار رکھوالی کی باری نیول والوں کی تھی، میں بھی لاکھوں پاکستانیوں کی طرح چینج آف گارڈ کا منظر ٹیلیویژن پر بڑے خشو و خضوع کے ساتھ دیکھ رہا تھا، نیول دستہ کا ہیڈ جو کاشن دے رہا تھا مجھ کو یوں لگا جیسے وہ اپنی مخصوص زبان میں قائد کو جگا رہا تھا کہ محمد علی جناح صرف ایک بار اپنی آنکھیں کھول اور دیکھ اپنے پاکستان کا حال وہ چیخ رہا تھا ،اُٹھ اُٹھ اور خدا کے واسطے دیکھ ملک کا حال ،میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ کاشن دینے والے نوجوان آفیسر کو روکوں کہ بس کر بھائی جب ہم زندہ لوگوں کی آنکھ نہیں کھلی تو قائد کو کیا ضرورت ہے اپنی آنکھیں کھولنے کی ،شاید کاشن دینے والے کا مقصد کہ حضور ایک نظر اپنے وزیر اعظم پر تو ماریئے، رولنگ ایلیٹ کو تو دیکھیں ،کیسے کیسے نامرادوں کا قبضہ ہے، آپ کے پاکستان پر سال ہوتے ہیں جب ان ظالموں نے ملک دو لخت کردیا، بنگالی جس نے آپ کی سیاسی جماعت مسلم لیگ بنائی آپ کی قیادت میں ملک انگریزوں، ہندوئوں اور مکرو فن کے مالک ملاں کے جبڑے سے مشرقی اور مغربی زمین کا ٹکڑا چھین کر پاکستان بنایا اور اگست یوم آزادی مناتے ہوئے ان بنگالیوں کا ذکر تک نہیں ہے ،خیر اس بیچارے آپ کے مزار کے چوکیدار کے کاشن میں آپ کو جگانا نہیں بلکہ اپنے شور سے ڈرانہ ہے کہ کہیں آپ واقعی اپنی آنکھ کھول کر ہمارے ہولناک چہرے نہ دیکھ لیں، بس میرے قائد آپ ابدی نیند سو رہے ہیں سوتے رہیں ۔قارئین وطن !سالوں کی تاریکی اور جبر کے بعد روشن سویرے کہ امکان روشن تو ہوئے ہیں مزار قائد کے نیول آفیسر کے کاشن میں اس کے شور اور تلخ لہجہ میں اس نوجوان نے قائد کو یہ پیغام دیا ہے کہ قائد تیری سوچ اور امنگوں کو پورا کرنے کے لئے اور تیرے اور تیرے رفقا کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالی نے مرد مجاہد عمران خان نیازی کی شکل میں بیجھ دیا ہے جو تیری راہوں پر چل کر مکرو فریب سے لدے چہروں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آگیا ہے – اس جری نوجوان نے آزادی کی جانب ہمارا رخ موڑ دیا ہے اس نے سالہ نیند سے تیری قوم کو بیدار کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی واضح مثال اگست کو ہونے والے جلسہ نے دے دیا ہے اس کی آواز میں تیری آواز گونج رہی تھی اس نے نیوٹرل اور غیر نیوٹرل کا فرق بھی تیری قوم کو سمجھا دیا ہے – میرے قائد عمران نے تیرا نام بیچنے والوں کے چہروں سے مکاری کی سیاحی اتار کر دکھا دیا ہے – میرے قائد جیسے تو پاکستان کے دشمنوں کے سامنے تنہا کھڑا تھا آج یہ نوجوان اسی طرح پاکستان کے دشمنوں کے سامنے تنہا کھڑا ہے اللہ پاک اس کو کامیابیوں سے ہمکنار کرے آمین –
قارئین وطن! ملک کی ڈائمنڈ جوبلی منانے کے شوق میں نام نہاد وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک لمبی چوڑی ملمعہ کاری سے بھری تقریر جھاڑی کیا مکاری کا فن پیش کیا ہے ہر لفظ جھوٹ پر مبنی تھا ،دھوکہ دہی سے براجمان ٹولہ ملک کو ہر آئے دن بربادی کی جانب لے جانے والے گروہ کا سربراہ یہ شہباز شریف جو اس وقت بیرونی سازشوں کے بل بوتے پر حکمرانی کا ڈھول پیٹ رہا ہے، اس کے چہرے سے صاف عیاں تھا کہ یہ لوٹ مار کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا لیکن امید سحر سے جڑے لوگ جانتے ہیں کہ بہت جلد قوم کو ان سے چھٹکارا حاصل ہو گا،اس وقت قوم کے ہر باشعور طبقہ کو چاہئے کے سیاست کو اس ملعون طبقہ سے پاک کرنے کے لئے عمران خان کا بھر پور ساتھ دے اور خاص طور پر پاک فوج جس کو عوام قدرو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے کو اب چاہئے کے سالوں کے بعد ملک کو جمہوری پٹری پر چلانے کے لئے حقیقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک ایسے میثاق پر کام کریں کہ ہر سیاسی رہنما قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں،لیکن اب قوم کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ نواز، شہباز ،مولوی فضل الرحمان اور آصف زرداری جیسے بلونی لیڈروں سے بھی نجات حاصل کرنا بہت ضروری ہے ۔
قارئین وطن! قوم کی ویں سالگرہ پر جہاں لوگوں کو رنج و غم ملا وہاں ہم نیوکلئیر ملک بھی بنے اور بڑے بڑے ملکوں کے مقابلہ میں ہم نے بہت سے ترقی کے مراحل بھی طے کئے اور نئی نسل نے ہماری اس ترقی میں بہت اہم رول ادا کیا اور آئندہ بھی یہی اُمید ہے نوجوان نسل سے ،ہماری سیاست کو اِس کارپوریشن سیاست کلچر سے پاک کر کے اپنے قائد کی جماعت کو آزاد کر وائیں تاکہ ملک کو سیاسی سمت پر ڈالا جائے ،اس وقت ملک کی یہی ضرورت ہے یہ ٹھیک ہو جائے تو ملک واقعی قائد کی سوچ اور فکر کا ملک بن جائے میری آنکھ اس شعر میں قوم کا فیوچر دیکھ رہی ہے!
تڑپ تڑپ کر شبِ حجر کاٹنے والوں
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا
سردار محمد نصراللہ
٭٭٭