ساٹھ صفحے کا اشتہار!!!

0
43
عامر بیگ

ہوگو چاویز کے زمانہ میں وینزویلا جانے کا اتفاق ہوا گاں اور شہروں میں گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملا غربت تھی مگر لوگ خوش تھے لوگوں کو ہر شام سکول ختم ہونے کے بعد میز کرسیاں لگا کر سرکار کی طرف سے کھانا کھلایا جاتا امیر غریب کی کوئی بندش نہیں جو چاہے آئے کھائے کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا کون آیا کون گیا صرف نمبرز کانٹ کئے جاتے کہ اتنے بندے کھانا کھا گئے ہر شام ہوگو چاویز ٹی وی پر بیٹھ کر خود مانیٹر کرتا ،عوام کو بتاتا تھا کہ کہاں کتنے لوگوں کو کھانا ملا ،کیسا ملا اور اگر کسی کو کوئی شکایت ہوتی تو اسکے بارے متعلقہ افراد سے پوچھا بھی جاتا۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا اور اچھا کھانا دیا جاتا اسی کے ابتدائی دور میں وینیزویلا میں موجود تمام امریکیوں کو نکل جانے کا حکم بھی دیا گیا پھر چاویز نے بے بی بش کو یو این اجلاس میں کتے کا پلا کہہ دیا لہزا بدلہ لیا گیا رجیم چینج کرنے کے لیے صدر ہوگو چاویز گرفتار کر لیا گیا چاویز سے پیار کرنے والے عوام سڑکوں پر آگئے جن کا مطالبہ تھا کہ جب تک ہوگو چاویز پلاسیو دے پریذیڈنتے صدارتی محل کی کھڑکی میں کھڑا ہو کر ہاتھ نہیں ہلائے گا عوام گھر نہیں جائیں گے واٹر کینن استعمال کی گئی ہر حربہ آزمایا گیا یہاں تک کہا گیا آپ گھر جاآو چاویز کو رہا کر دیا جائے گا مگر عوام کی خواہش کہ وہ آکر خود کہے آخر کار مجبورا ایسا ہی کرنا پڑا صدر چاویز کو جیل سے نکالا گیا صدارتی محل کی کھڑکی میں لایا گیا اور عوام کو مختصر خطاب میں صدر چاویز نے کہا کہ اب آپ اپنے اپنے گھروں کو جا میں آپکی خدمت کرنے کے لیے واپس آگیا ہوں آپ سب کا بہت بہت شکریہ عوام کیلیے کام کرنے والے کو کسے اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی عوام ہی اسکے اشتہار ہوتے ہیں وینزویلا میں بھی پہلے تین چار سال تک اسی طرح عوام کو مشکلات پیش آئی تھیں مگر رفتہ رفتہ حالات قابو میں آگئے عوام خوش تھی ابھی پاکستان پر بھی اسی طرح کا کٹھن وقت چل رہا ہے خان کے ابسولیوٹلی ناٹ کو شاویز کے جملہ کی طرح ہی لیا گیا رجیم تبدیل کر دی گئی خان نے بھی اپنے دور میں چاویز کی طرح عوام کی خدمت کی غریبوں کے لیے لنگر خانے کھلوائے جہاں صاف ستھرا کھانا دیا جاتا جس پر اس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکومت کو بڑا اعتراض تھا کہ خان خود بھی بھکاری ہے ساری عمر چندہ مانگتا رہا اور قوم کی عزت نفس سے بھی کھیل رہا ہے اوئے جھلیو ریاست مدینہ میں تو ایک کتا بھی دریائے فرات کے کنارے بھوکا مرے تو حکمران ذمہ دار ہے خان نے بولنے والوں کی پروا کئے بغیر پناہ گاہیں کھولیں کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام چلایا فلاحی مملکت کا اصول اجاگر کیا انصاف کارڈ بچت کے اصول سکھائے اور اپنائے یہ لوگ تو روٹی کپڑا اور مکان کا صرف نعرہ ہی لگایا کرتے تھے سستے تندوروں سے بھی مال بناتے تھے ۔بے نظیر اِنکم سکیم سے اپنے ذاتی نوکروں کے نام پر رقمیں وصول کرتے تھے مگر صحیح معنوں میں ریاست مدینہ کا کانسیپٹ عمران خان کی تحریک انصاف نے ہی رائج کیا جس سے حکومت پر عوام کا اعتماد بڑھا بیرونی سرمایہ آنے لگا سترہ سال کے عرصہ کے بعد ہم سرپلس میں آگئے تھے ایکسپورٹس اور ریمیٹینسز بھی بڑھ گئی تھیں جی ڈی پی چھ اعشاریہ چار تک پہنچ گئی مہنگائی تھی مگر اتنی نہیں جتنی فارم سینتالیس کی حکومت میں ہے اشتہارات بھی دیئے جاتے تھے پر اس میں عمران خان کی تصویر نہیں ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ میڈیا عمران خان کے خلاف تھا کہ نہ کھاتا ہے اور نہ ہی کھلاتا ہے لیکن موجودہ حکومت میں ہر اس مقام پر جا کر ٹک ٹاک بنائی جاتی ہے جہاں کسی کام کا ارادہ بھی ہو کام کی بجائے نام پر توجہ ہے اور اشتہارات کی بھرمار ہے ساٹھ ساٹھ صفحات کے اشتہارات جن پر وزیر اعلیٰ کی بڑی بڑی تصاویر صرف پروموشن کے لیے ہے اور بھی سرکاری خرچ پر حکومت کے خلاف بولنے والوں کو میڈیا سے نکالا جا رہا ہے اور اشتہارات کو سراہنے والوں کو مزید نوازا جا رہا ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here