وزارت قرض حسنہ!!!

0
36
حیدر علی
حیدر علی

میرے ایک دوست جو اسلام آباد میں پاکستان کی وزارت مالیات کے دفتر میں عموما”چکر لگایا کرتے ہیں ، گذشتہ ہفتے اُنہیں یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ وہاں وزارت مالیات کے بجائے ” وزارت قرض حسنہ ” کا سائن بورڈ آویزاں تھا، نئے سائن بورڈ کی نشاندہی اِس بات کی بھی علامت تھی کہ وہ جس پروجیکٹ کیلئے حکومت پاکستان کے تعاون کے منتظر تھے وہ بھی ملیا میٹ ہوگیا ہے،بہر کیف وہ وزارت قرض حسنہ کے دفتر اپنے دوست سے ملنے چلے گئے ، اور سائن بورڈ کی تبدیلی پر اُن سے استفسار کرلیا، اُن کے دوست نے فرمایا کہ جیسا کام ہو ویسا ہی نام ہو، اِن دنوں پاکستان کی وزارت مالیات صرف ایک ہی محور کے گرد گردش کر رہی ہے ، اور وہ ہے کس طرح اور قرض حاصل کیا جائے تاکہ ماضی میں لئے جانے والے قرضوں کی ادائیگی ہوسکے، ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کیلئے اب صرف یہی کام رہ گیا ہے، آپ کو سہانے خواب دکھائے جاسکتے ہیں، طویل اخباری بیان سے آپ کو مسحور کیا جاسکتا ہے، ملک کی ترقی کے بارے میں گُن گایا جاسکتا ہے، کس طرح ملک کو نئے ریونیو سے مالا مال کیا جاسکتا ہے یا ترقی کا دروازہ کس طرح کھولا جاسکتا ہے، اور پھر تعلیم اور ہیلتھ کیئر کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے لیکن یہ ساری باتیں محض پریوں کی کہانیاں ہیں، کیونکہ حکومت کے خزانے میں کوئی بھی رقم موجود نہیں ہے اور مستقبل قریب میں اِس میں رقم آنے کی کوئی امکانات ہیں، بجٹ میں آمدن کے حصول کیلئے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ کبھی بھی پوری نہ ہوسکے گی، اور نہ ہی جو رقمیں اخراجات کیلئے رکھی گئی ہیں وہ خرچ ہوسکیں گی ، کیونکہ ایسی کوئی رقم دستیاب ہی نہیںہے، وزارت مالیات کا صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ قرض لیا جاسکے تاکہ قرض کی ادائیگی وقت مقررہ پر ہوسکے. اور چونکہ ہمیں قرض کی ادائیگی کیلئے اتنی رقمیں نہ مل سکیں گیںجتنی کے درکار ہیں اِسلئے ہم اُن تمام قرضوں کو ادا نہ کرسکیں گے جو ہم پر واجب الادا ہیں، مجبورا” ہمیں اپنے قومی اثاثوں کو فروخت کرنا پڑیگا۔
لہٰذا اب آپ کو اِس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ پاکستان کی وزارت مالیات کا نیا نام ” وزارت قرض حسنہ ” ہے چونکہ مال ہی نہیں رہا تو مالیات کا دُم چھلا رکھنے کا کیا فائدہ؟ وزارت قرض حسنہ کے سارے افسران و ملازمین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ صنعتکاروں ، سرمایہ داروں سے رابطہ قائم کریں اور اُن سے ملک کے خزانے میں قرض حسنہ دینے کیلئے بھیک مانگیں جو بھیک نہیں مانگے گا اُسے تنخواہیں نہیں ملیں گی۔ اِس صورتحال سے تنگ آکر بعض افسران اپنے بال بچوں کو لے کر غیر ملک حتیٰ کہ چین اور روس چلے گئے ہیں، اُنہوں نے اپنی فیملی کو یہ حکم دے دیا ہے کہ کوئی پاکستان کا نام تک بھی نہ لے، وزارت قرض حسنہ کے دوسرے ملازمین جن کی پہنچ صنعتکاروں اور سرمایہ دار وں سے نہیں ہیں، اُنہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ ڈھولک لے کر شاہراہوں پر ، گلیوں اور کوچوں پر یہ ڈھنڈورا پیٹیں کہ وزارت قرض حسنہ کو اُن کی امداد کی ضرورت ہے، اُن کے قرض حسنہ کو خوش آمدید کہا جائیگا، بلکہ لاہور کے ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں جہاں لوگ ذائقہ دار کھانا کھانے میں مصروف تھے ، وہاں وزارت قرض حسنہ کے ملازمین نے دھاوا بول دیا ، اور لوگوں سے گد گدا کر یہ کہنا شروع کردیا کہ خدا کیلئے وزارت قرض حسنہ کی امداد کریں، ایک شخص نے تو یہ منہ توڑ جواب دے دیا کہ جب اُس نے وزارت مالیات میں نوکری کیلئے درخواست دی تھی تو کیوں سفارشی کو رکھ کر اُسے نظرانداز کردیا گیا تھا؟ جیسا تم لوگوں نے بویا ہے ویسا ہی اب کھٹا پھل کھاؤ۔قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کی باتیں محض دِل لگی نہیں تھیںبلکہ اِس میں حقیقت کا ایک پہلو پنہاں تھا، تازہ ترین پیش رفت میں خبر آئی ہے کہ حکومت پاکستان نے کراچی کے ایک پورٹ ٹرمینل کو پرائیویٹیزیشن کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ایک سعودی ٹیم نے پاکستان کے تمام ایئر پورٹس کا بغور جائزہ لیا ہے اور جن میں سے تین ایئر پوٹ کو جلد ہی غیر ملکیوں کے کنٹرول میں دے دیا جائیگا،گذشتہ ماہ ہی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان سے مویشیوں کو متحدہ عرب امارات اور دبئی بھیجا جائیگا تاکہ شیخ بیف اسٹیک کھا سکیں، اُن مویشیوں میں پہلے گدھے شامل نہ تھے ، لیکن اب گدھوں کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے پیش نظر اُنہیں بھی شامل کرلیا گیا ہے۔
پاکستان کے ماہرین معاشیات نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کے دواہم شعبے کا شیرازہ بکھر چکا ہے ، جن میں ملک کی معشیت اور دفاغ شامل ہیں، مستقبل قریب میں ہم سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کی خدمت گذاری شروع کردینگے، کیونکہ ہمارا ملک اُن کے زیر ماتحت چلا جائیگا، ہمارے ملک کے پاس غیر ملکیوں کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے 130 بلین ڈالر نہیں ہیں، بینکوں سے لئے جانے والے قرضوں میں پاکستان کی مرکزی حکومت کا شیئرز 85 فیصد ہوتا ہے، افراط زر میں دِن دونا رات چوگنا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت پاکستان کو الیکٹرک کی سبسڈی کرنے میں ایک ہزار بلین روپے
خرچ کرنے پڑتے ہیں، ملک کی معشیت کا بیڑا غرق ہونا اُس وقت سے شروع ہوا جب سے فری ٹریڈ کی بنیاد ڈالی گئی لیکن کیا اب ہم کسی بھی قسم کی تجارت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم کوئی بھی ایسی چیز بناسکتے ہیں جو دنیا کا کوئی ملک ہم سے خریدے؟ ہم صرف افرادی قوت کا دعوی کرتے ہیں ، لیکن ہمارے پاس تجربے کار افرادی قوت کی بھی کمی ہے، ہمیں جو تجربہ حاصل ہے وہ صرف قرض حسنہ سے بینک بنانے کا ، کاغذی صنعتوں اور کار خانوں کی بنیاد ڈالنے کا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here