بی بی عائشہ کی خوبیاں !!!

0
53
رعنا کوثر
رعنا کوثر

حضرت عائشہ ہمارے رسول حضرت محمدۖ کی بیوی اور حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی تھیں حضرت عائشہ کے شاگردوں کا بیان ہے کہ تاریخ، ادب، خطابت اور شاعری میں ان کو عبور اور کافی شناسائی تھی۔ اور طب میں بھی ان کو عمل دخل تھا۔ ہشام بن عروہ کی روایت ہے کے میں نے قرآن، فرائض، حلال وحرام(یعنی ققہ) شاعری، عرب کی تاریخ ونسب کا حضرت عائشہ سے زیادہ واقف کار کسی کو نہ پایا، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ سے زیادہ طب کا ماہر کسی کو نہ پایا۔ یہ ظاہر ہے کے عرب میں فن طب کا باقاعدہ رواج نہ تھا۔ عرب کا سب سے بڑا طبیب اس زمانے میں حارث ابن کلدہ تھا اور ملک میں چھوٹے طبیب ومعالج تھے ان کا فن طب وہی تھا جو جاہل قوموں میں رائج ہوتا ہے کچھ جڑی بوٹیوں کے خواص معلوم ہوں گے، کچھ بیماریوں کی مجرب دوائیں معلوم ہوں گی۔ حضرت عائشہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ شعر کہتی ہیں تو میں نے مانا کہ آپ ابوبکر کی بیٹی ہیں کہہ سکتی ہیں لیکن آپ کو طب سے واقفیت کیسے ہوئی، فرمایا آپۖ آخری عمر میں بیمار رہا کرتے تھے عرب کے طبیب آیا کرتے تھے جو وہ بتاتے تھے میں یاد کر لیتی تھی۔ تاریخ، عربوں کی تاریخ، جاہلیت کی رسوم اور قبائل کے باہمی لڑائی جھگڑوں کی واقفیت میں حضرت ابوبکر کو مہارت حاصل تھی۔ اس لئے ان فنون سے واقفیت ان کا خاندانی ورثہ تھا، عروہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ سے زیادہ کسی کو عرب کی تاریخ ونسب کا ماہر نہ پایا۔ عرب جاہلیت کے رسوم اور معاشرتی حالات کے متعلق بعض نہایت قیمتی معلومات حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ ہی کی زبانی منقول ہیں۔ مثلاً عرب میں شادی کے کتنے طریقے جاری تھے۔ طلاق کی کیا صورت ہوتی تھی، شادیوں میں کیا دیا جاتا تھا ،ان کے روزہ کا دن کیا تھا۔ قریش حج میں کہاں اترتے تھے میت کو دیکھ کر کیا کہا جاتا تھا۔ انصار کی بعض مذہبی رسوم مثلاً وہ جاہلیت میں کون سے بت پوجتے تھے ان ہی سے ہم کو معلوم ہوا اسلام کے تاریخی واقعات، قرآن کیونکر اور کس ترتیب سے نازل ہوا۔ نماز کی کیا کیا صورت اسلام میں پیدا ہوئی انہی نے بتایا۔ میدان جنگ کے حالات، جنگ اور جنگ بدر کے حالات مفصل بیان کیے۔ فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت حجة الوداع کے واقعات کے ضروری اجزاء ان ہی سے سنے۔ آپ کی سیرت پاک کے متعلق صحیح معلومات آپ کے ذاتی اخلاق کا نقشہ ان ہی نے ہم کو کھینچ کردیا۔ آپۖۖ پر سب سے سخت دن کون سا گزرا ان ہی نے ہم کو بتایا آپۖ کے بعد کے واقعات بھی انہوں نے ہی تفصیل سے بتائے۔ تاریخ اسلام کے متعلق تو ان کے معلومات ذاتی مشاہدات پر مبنی تھے لیکن عرب جاہلیت کے حالات انہوں نے کس سے سنے یہ فیض ان کو اپنے والد سے پہنچا تھا۔ ادب! ادب سے مراد عام گفتگو کی خوبی اور نشر کی خوبی ہے بہت سی روایتیں اس باب میں متفق ہیں کہ حضرت عائشہ نہایت شیر میں کلام اور فصیح البیان تھیں ان کے ایک شاگرد موسیٰ بن طلحہ کی روایت ہے کہ !
حضرت عائشہ سے زیادہ اچھی زبان میں نے نہیں دیکھی ،
احنف بن قیس لکھتے ہیں
کسی مخلوق کے منہ کی بات حسن بیان اور متانت میں حضرت عائشہ کے منہ سے نکلی ہوئی بات سے عمدہ اور بہتر بات نہیں سنی۔
حضرت عائشہ سے مروی ہزاروں حدیثیں ہیں ان کی زبان سے نکلا ہوا فقرہ پوری حدیث میں جان ڈالی دیتا تھا۔ ایک جگہ فرماتی ہیں آپ پر جب وحی کی کیفیت طارق ہوتی تھی تو پیشانی عرق آلود ہوجاتی تھی۔ اس کو اس طرح ادا کرتی ہیں مثل الحجمان ”پیشانی پر موتی ڈھلکتے تھے” آپ جو بھی قصہ بیان کرتیں اس کا ایک ایک لفظ عرب کی زبان اور ان کی تشبیہات و استعارات کا خالص نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ کی مزید خوبیوں کا ذکر میں اپنے اگلے کالم میں رکھوں گی۔ مگر جب میں ان کی یہ خوبیاں پڑھ رہی تھی تو میں سوچ رہی تھی کے آج کل کی خواتین ہی سوچتی ہیں کے اس جدید زمانے میں ہی عورت صحیح وبلیغ طریقے سے بھرپور آداب سے بات کرتی ہے۔ مگر حضرت عائشہ ان تمام خوبیوں سے مالا مال تھیں اور ہم میں سے اکثر اس بارے میں نہیں جانتے ہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here