قارئین!امریکہ میں بسنے والے ہمارے پاکستانی مختلف مراحل میں گزرتے ہیں ان ہی میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کے جب محنت کرکے اپنے بچوں کو بڑا کرتے ہیں تو ایک عمر گزر جاتی ہے جو لوگ جوانی میں امریکہ آئے کچھ بچوں سمیت آئے اور کچھ نے یہاں زندگی کا آغاز کیا بچے ہوئے ان کو پڑھایا لکھایا اور یہاں کے ماحول میں رہتے ہوئے ہر طرح کی آسائش کے ساتھ پروان چڑھایا اب یہی بچے بڑے ہوگئے ہیں۔ان کی زندگی میں اب وہ مرحلہ آیا ہے جو کبھی یہاں آکر بسنے والوں کی زندگی میں آیا تھا یعنی کے ان بچوں کی شادیاں اور پھر ان کے بچے یہاں آنے والے ہم جیسے لوگوں نے شروع میں اپنے بچوں کے لیے بے بی سٹر رکھیں اور باب کا آغاز کیا۔یہ بے بی سٹر وہ خواتین ہوتی تھیں۔جو ہماری طرح پاکستان سے آئی تھیں اور جو ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے یا گرین کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر بچے سنبھالنے کا کام انجام دیتیں اور بہت مناسب پیسوں میں بہت محبت پیار اور شفقت سے بچوں کو رکھتیں۔اکثر خواتین پورے پانچ دن گھر پہ ہی آکر رہ جاتیں اور بچوں کو سنبھالتیں اور کچھ خواتین دن بھر کے لیے آجاتیں۔یا پھر وہ گھرانے بھی تھے۔ جہاں والدین بچوں کو لے جا کر دن بھر کے لیے دے دیتے بچوں کو لوگ محبت پیار سے رکھتے اور والدین اپنی جاب کرکے شام کو گھر واپس آئے تو ان کو بھی ان گھروں سے بہت محبت پیار ملتا۔ان میں پاکستانی گھرانے بھی تھے اور انڈین خواتین بھی تھیں جو نہایت سادگی سے آئیں اور بچے دن بھر ان کے پاس وقت گزارتے۔یوں ایک اچھا وقت گزرا۔بچے محبت بھرے ماحول میں بڑے بھی ہوئے اور والدین کو بھی مناسب تنخواہ دے کر اچھی بے بی سٹر حاصل ہوئیں۔ اب وقت بدل گیا یا تو مہنگائی بہت ہو گئی ہے یا اب سب بہت زیادہ پروفیشنل ہوگئے ہیں۔اب ایک عام سی خاتون بھی بس کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے کوئی ڈگری بھی نہیں ہے بچے سنبھالنے کے بہت پیسے مانگتی ہیں۔اتنے کے والدین سوچتے ہیں کے جاب کرنے کی بجائے کوئی ایک گھر ہی بیٹھ جائے اور بچے سنبھال لے۔اس کے علاوہ اگر بچہ کسی کے گھر پہ چھوڑا جائے تو بھی پیار اور خلوص کی جگہ بہت مشینی انداز میں یہ بتا دیا جاتا ہے کے بچے کو صرف ٹائم ٹیبل کے حساب سے رکھا جائے گا۔اور کھانا پینا آپ جو بھی دیں گے کھلا دیا جائیگا۔اور پھر پیسوں کی ڈیمانڈ بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے میں مجھے وہ یاد آتا ہے جب ہم اپنے بچوں کو ایک محبت کرنے والے بنگلہ دیشی گھر میں چھوڑتے تھے وہ لوگ بچوں کو محبت اور خلوص دیتے تھے۔پھر سب ہی اپنے کھانے پینے ہمارے بچوں کو کھلانے کی کوشش کرتے تھے۔اس کے باوجود کے ہم ان کو بچوں کے لیے الگ سے کھانا دیتے تھے۔گھر میں بھی خواتین کو رکھا گیا بہت اچھی طرح دن بھر رکھتیں گھر کی صفائی بھی کر دیتیں۔ضرورت پڑنے پر کھانا بھی بنا دیتیں۔مناسب تنخواہ میں خوش رہتیں۔بہت ساری خواتین آج اپنے بچوں کو ان ہی پیسوں سے پڑھا چکی ہیں۔گھر میں سکھ چین کی زندگی گزار رہی ہیں۔آج بھی ہمارے بچوں سے ویسی ہی محبت کر رہی ہیں۔
اس زمانے کا خلوص اور محبت برکت کا باعث تھا۔ہمارے بچے آج بھی اپنی بے بی سٹرز کو یاد کرتے ہیں۔
اب صرف پیسہ اور پرونیشن رہ گیا ہے اب کچھ بچے بھی ایسے ہی لوگوں کے درمیان بڑے ہو رہے ہیں کیا ہی اچھا ہو کے ہم آج بھی بچوں کو خلوص اور پیار زیادہ دیں۔اور پیسے کو اہمیت کم دیں۔
٭٭٭