فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
252

محترم قارئین! ربیع الاوّل امیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا، دعائوں کی قبولیت کو ہاتھوں ہاتھ لے آیا، نثار تیری چہل پہل پہ ہزاروں عیدیں ربیع الاوّل سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں۔ ربیع الاوّل ہمارے اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ ربیع کا اصل معنی اس موسم سے متعلق ہے جس میں زمین بارش کی وجہ سے سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے یعنی موسم بہار ظاہری طور پر چونکہ ابتدائی زمانہ میں کچھ دنوں تک موسم بہار اسی مہینہ میں پڑا۔ اس لئے اس کا نام ربیع الاوّل رکھا گیا ،روحانی معنوی طور پر یہ مہینہ ”ماہ ربیع و موسم بہار” اس لئے قرار دیاگیا ہے کہ اس میں حبیب خداۖ رحمت مجسم بن کر تشریف لائے، انوار کی بارش ہوئی، تمام کائنات پر بہار چھا گئی تاریکی وخزاں کا موسم و دور ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ اس مہینہ کا سب سے زیادہ اور بزرگ شرف یہ ہے کہ حضور پر نور رحمت عالمۖ نے اس مہینہ میں اپنے قدوم ہمنت لزوم سے اس خاکدان عالم کو شرف فرمایا، جن کے ظہور کے سبب تمام جہان پیدا کئے گئے اور آپ کی امت خیرامم کے شرف سے ممتاز فرمائی گئی اور اسی مہینے میں آپ لقائے الٰہی کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ شرف سب مہینوں پر سبقت لے گیا۔ اس سارے مہینے میں بالعموم اور12ربیع الاوّل شریف کو بالخصوص تمام ممالک کے باذوق وصحیح العقیدہ مسلمان میلاد النبیۖ کی ترقیب سعید مناتے ہیں جگہ جگہ محافل میلاد ومجالس ذکر و درود کا انعقاد ہوتا ہے۔ قریہ قریہ عظیم الشان جلوس نکالے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے وسیع پیمانے پر خیرات ہوتی ہے طعام و شیرینی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ذکر مصطفویۖ کے اعزاز وشوکت کے لئے محافل وجلوس کی زیب وزینت سے بارگاہ رسالتۖ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرکے محبت ونیازی مندی کا اظہار کیا جاتا ہے اور حساس علماء وصاحب دل عوام سیرت نبوی وتعلیم محمدیۖ کی روشنی سے اپنی گفتارو کردار کو آراستہ کرتے ہیں اور شکر خداوندی بجا لاتے ہیں کہ جس نے اتنا بڑا احسان فرمایا اور ہمیں اُمت محمدیۖ بنایا۔ پاک وہند اور دوسرے تمام ممالک میں اس موقع پر اس خاص امر کو حضور اعلیٰ حضرت اور حضور محدث اعظم رضی اللہ عنھا کا فیضان گردانہ جاتا ہے کہ جس کام کیلئے ان نفوس قدسیہ نے خاص کوششیں کیں اور بہت مشکلات اور جاہلوں کے فتوئوں کا سامنا کیا آج اُمت مسلمہ بڑی آسانی سے اس امر کو ادا کر رہی ہے ، گلی گلی ،مارکیٹوں، دکانوں ، فیکٹریوں تک سکولز اور کالجز و یونیورسٹیز تک کو قمقموں اور لائٹس سے چمکا دیا جاتا ہے اور ہر کوئی چاہتے ہوئے یا ناچاہتے ہوئے مجبوراً اس انتظام میں شامل ہوتا ہے۔ یقینی بات ہے جو خوشی سے چاہت لے کر شامل ہو اجرو ثواب اور برکات کا انبار بھی وہی اکٹھا کرے گا کیونکہ لوگوں کو تو دھوکہ وفریب دیا جاسکتا ہے لیکن خدا اور رسول جل جلالہ وۖ کو نہیں۔ بہرحال نبی پاک ۖ کی ولادت باسعادت، آمد اور اوصاف وکمالات کا تذکرہ کرنا قرآن پاک واحادیث مبارکہ سے ثابت ہے جیسا کہ پارہ نمبر3رکوع نمبر16سورہ آل عمران آیت نمبر82,81میں مذکور ہے، ترجمہ: ”اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں، پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسولۖ کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ایمان لا کر اس پر فرمایا! کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا، سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا! تو ایک دوسرے پر گواہ ہو جائو۔ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہ ہوں تو جو کوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ فاسق ہیں”
اس آیت پاک کے بیان سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیھم السلام کی محفل منعقد کی، اہتمام پورا فرمایا پھر ان کے سامنے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کی تشریف آوری کا بیان فرمایا پھر ان سے آپۖ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا عہد لیا اور ان کے ساتھ اپنی گواہی کو شامل فرمایا یہ حضورۖ کی بے مثال نعت اور کمال عظمت کا بیان ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء کرام علیھم السلام بھیجے ان سب سے محمد رسول اللہۖ کے بارے میں عہدلیا کہ آپ اگر ان کے زمانہ میں مبعوث ہوں تو وہ آپ پر ایمان لائیں اور مدد کریں اور اپنی اپنی اُمت سے اس مضمون کا عہد لیں۔ ابن عیسیٰ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے:ترجمعہ: ”ہمیشہ اللہ تعالیٰ حضور ۖ کے بارے میں آدم اور ان کے بعد کے سب انبیاء علیھم السلام سے پشین گوئی فرماتا رہا اور سب اُمتیں ہمیشہ حضور ۖ کی تشریف آوری کی خوشیاں منائیں اور آپ کے توصل سے اپنے دشمنوں پر فتح مانگتی آئی ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضورۖ کو بہترین اُمت بہترین زمانہ، بہترین صحابہ علیھم الرضوان اور بہترین شہر میں ظاہر فرمایا: ہمارے نبیۖ تمام نبیوں علیھم الصلواة والسلام کے نبی ہیں اور تمام رسولوں علیھم الصلواة والسلام کے رسول ہیں۔ اعلیٰ جو رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا ہے۔ اے جب خود صاحب قرآن ہے مداح حضور تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی؟ ۖ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here