یوم آزادی یا یوم تجدید غلامی !!!

0
109
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

آج چودہ اگست2023ہے پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگ یوم آزادی منا رہے ہیں اللہ کرے پاکستان کی خیر ہو اور استحکام نصیب ہو۔ متحدہ ہندوستان میں جتنی بھی قومیں آباد تھیں ان سب کا رہن سہن ایک جیسا تھا کھانا پینا بھی ایک جیسا تھا۔ لین دین بھی ملتا جلتا تھا۔ پھر آخر کیا وجہ تھی جو علامہ محمد اقباال رحمتہ اللہ علیہ نے1930کے سالانہ جلسہ میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ اور دو قومی نظریہ کی وضاحت کی آپ نے فرمایا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ہندوستان میں اکٹھے رہتے ہیں۔ مگر ہمارا نظریہ ہندوئوں سے مختلف ہے ہمارے دین میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ کوئی ذات پات نہیں کو اچھوت نہیں۔ کوئی اعلیٰ نہیں کوئی ادنیٰ نہیں ہم ڈھیر سارے خدائوں کو نہیں مانتے ہم صرف ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں ہم اس کے پیغمبر اور اپنے نبی سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔ لہذا ہندو توا الگ نظریہ ہے اور اسلام الگ نظریہ ہے گول میز کانفرنس میں علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے قائداعظم محمد علی جناح سے مشورہ کرنے کے بعد مملکت خدا داد پاکستان کا مطالبہ ترتیب دیا۔ 1936 سے 1938 تک مسلسل خط وکتابت سے ایک منزل کی طرف چل پڑے حالانکہ مسلم نیشلیٹ راہنمائوں اور علماء دیو بند کی مخالفت بھی مول لی۔ مگر راستہ نہیں بدلا ہندو نے حسب عادت و روایت آل انڈیا کانگریس کی صدارت پیش کی اور وہ بھی تاحیات قائداعظم محمد علی جناح اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر لڑا پاکستان کا مطلب الا الہ الا اللہ اللہ رب العزت نے رمضان المبارک کے مہینے میں شب قدر کو پاکستان عطا فرمایا۔ مگر ہم جیسے وارثان پاکستان نے پہلے ہی دن سے قومی نظریہ کا تیا پانچہ شروع کردیا پہلی سیڑھی سے ہم بھٹک گئے۔ سب سے پہلا مرحلہ زبان کا تھا۔ راجہ صاحب محمود آباد نے مشورہ دیا زبان عربی رکھیں شمالی جنوب مشرق مغرب ہر گھر میں قرآن پڑھا جاتا ہے۔ لوگ مانوس ہیں جلدی سیکھ جائیں گے مگر کاریگر لوگوں نے اردو کو قومی زبان بنا دیا میں اردو زبان کا مخالف نہیں مگر آج تک ہمارے بلوچی سندھی، پٹھان بھائیوں کو اردو بولنا نہ آئی لطیفے بنے ہوئے ہیں۔ اگر عربی زبان ہوتی تو آج سارا عرب ہمارے ہاتھ میں ہوتا جیسے غیر لوٹ رہے ہیں اور پھر ہم نے اردو کے ساتھ بھی انصاف نہیں کیا کیونکہ کالے انگریز سمجھ گئے تھے۔ اگر اردو زبان دفتروں میں رائج ہوگئی۔ عدالتی زبان اردو ہوگئی تو ہماری حیثیت کیا ہوگی ہم جو ایچیسن کالج اور چیف کالج اور لندن کے سکولوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ ہمیں کون پوچھے گا ہم نے تو ساری زندگی حکومت کرنی ہے۔ چنانچہ ہماری سرکاری زبان انگریزی ہے عدالتی زبان انگریزی ہے اور یوں کالے انگریز ہمارے اوپر حکومت کر رہے ہیں ہمارے جج حضرات اور بیورو کریسی بھی قرآن مجید کی بجائے بلیک بک کے حوالے دیتے ہیں تو ہم کونسی آزادی منا رہے ہیں یہ آزادی نہیں ہے یوم تجدید غلامی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here