فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!

0
45

فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!

محترم قارئین! امام اعلیٰ مقام رضی اللہ عنہ اخلاق و عادات کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ تھے جہاں اللہ پاک نے انہیں جرات و بہادری کی صفات میں مقام عطا فرمایا وہاں اخلاق وعادات میں بھی بڑا مقام عطا فرمایا تھا، ابن عسا کر جلد نمبر4 ص332پر ہے کہ ایک بار ایک شخص کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا تو اسے شناخت کے طور پر بتایا کہ جب تم مدینہ میں پہنچ کر مسجد نبوی میں داخل ہوگے تو وہاں تمہیں لوگوں کا ایک حلقہ نظر آئے گا۔ اس حلقے میں لوگ بہت باادب طریقہ سے بیٹھے ہوں گے تو سمجھ لینا کہ یہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا حلقہ ہے معلوم ہوا کہ آپ کی اخلاقی خصوصیات اتنی بلند تھیں کہ لوگوں میں آپ بہت مقبول تھے اور لوگ آپ کا ادب واحترام کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کنیز نے پھولوں کا گلدستہ لا کر پیش کیا۔ گلدستہ ہاتھ میں لے کر حضرت امام نے سونگھا اور کنیز سے ارشاد فرمایا جائو تم اللہ کی راہ میں میری طرف سے آزاد ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عانہ فرماتے ہیں میں نے کہا! آپ نے ایک گلدستہ پر ہی اتنی اچھی خوبرو کنیز کو آزاد کردیا۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:ترجمہ: جب تمہیں اچھا تحفہ پیش کیا جائے تو تم اس جیسا یا اس سے بہتر تحفہ دیا کرو پس اس لئے سب سے اچھا تحفہ یہی ہوسکتا تھا کہ میں اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے معاف کردوں(تحفہ اتنا عشریہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی)
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے
میری۔میراث مسلمانی سرمایہ شبیری
حضرت امام عالی مقام علیہ السلام میں نہایت عاجزی اور انکساری تھی۔ تکبر سے سخت نفرت تھی آپ کو کسی کام کے کرنے میں یا کسی طبقہ کے لوگوں میں بیٹھنے میں کس قسم کی کوئی عار نہ تھی۔ ایک دفعہ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں چند غریب لوگ کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے آپ کو جو دیکھا تو دوڑتے ہوئے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا، حضور آیئے اور کھانا تناول فرمایئے۔ آپ اسی وقت ان غرباء کے حلقہ میں جا کر بیٹھے اور ان کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔ فرمایا کہ مجھے کھانے کی کوئی حاجت تو نہ تھی لیکن تمہاری خوشی کی خاطر چند لقمے تناول کر لئے ہیں۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،ترجمعہ: بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں فرماتا۔ ایک مرتبہ ایک ضرورت مند محتاج دیہاتی آپ کے دروازے پر حاضر ہوا اور چند گزارشات لکھ کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں۔ ترجمہ: میرے پاس کوئی ایسی چیز کوئی ایسی چیز نہیں رہی جس سے ایک دانہ خریدا جاسکے۔ میری حالت آپ پر ظاہر ہے بانے کی حاجت نہیں۔ میں نے اپنی آبرو بچا رکھی تھی اسے کسی کے ہاتھ فروخت کرنا پسند نہیں کرتا تھا مگر اب خریدار مل گیا ہے۔ اتفاق سے جواب آنے میں کچھ دیر ہوگئی۔ دیہاتی نے چار مصرعے اور لکھ بھیجے۔ جب میں لوٹوں گا تو مجھ سے پوچھیں گے کہ صاحب فضل سخی سے تجھے کیا ملا ہے تو کیا جواب دوںگا کہ مجھے کیا دیا اگر کیوں گا کہ مجھے دیا ہے تو جھوٹ ہوگا اور اگر کہوں کہ سخی نے اپنا مال روک لیا ہے۔ تو یہ بات مانی نہ جائے گی سیدنا امام عالی مقام نے دس ہزار درہم کی تھیلی اس سائل کو بھیجی اور ساتھ ہی اس اشعار میں ہی جواب دیا۔ ترجعہ: تم نے جلدی مچا دی ہے سوئم کو یہ قلیل حصہ مل رہا ہے۔ اگر تم جلدی نہ کرتے تو تمہیں اور زیادہ ملتا۔ اب بے بس تم یوں سمجھنا کہ سوال کیا ہی نہیں اور ہم سمجھیں گے کہ کچھ دیا ہی نہیں(ابن عساکر)
ایک صحابی نے حضورۖ کی دعوت کی۔ آپ بمعہ صحابہ علیھم الرضوان ان کے گھر تشریف لا رہے تھے۔ کہ راستے میں امام عالی مقام سے ملاقات ہوگئی۔ آپ بچوں کے ساتھ کھیل میں مشغول تھے۔(بچپن میں چونکہ کھیل ہر شے سے محبوب ہوتا ہے نہ کھانے پرواہ نہ گھر جانے کی فکر) حضورۖ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر پیار کرنا چاہا تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے دوڑ لگا دی۔ سرکار بھی پیچھے دوڑے اور آپ نے پکڑ لیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کہتے ہیں کہ حضورۖ نے ایک ساتھ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر کے نیچے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے امام حسین رضی اللہ عنہ کی ٹھوڑی پکڑ کر ان کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر بوسہ لیا اور پھر چھوڑ دیا۔(مسند امام احمد) سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی تمام زندگی رضائے الٰہی کے حصول اور عبادات الٰہی میں صرف کردی۔ آپ کے دن تدریس دین اور راتیں قیام وسجود میں بسر ہوتیں۔ اکثر لوگوں نے دیکھا کہ آپ جب اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوتے تو خشوع وخضوع اور تضرع کا عالم یہ تھا کہ آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں بندھ جاتیں۔ میدان کربلا کے عظیم مصائب کے وقت بھی آپ نے دن اللہ کے کلام کی تلاوت اور رات اللہ کے حضور رکوع وسجود میں گزار دی۔ آپ نے اپنی زندگی میں امام حسین علیہ السلام کی طرح خود پچیس حج پیدل ادا کئے۔ ابن عربی اور ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ ان اوصاف جمیلہ وجلیلہ کے حامل تھے۔ علم، حلم، عمل، عبودیت، صبرواستقلال، اولوالعزمی سخاوت، شجاعت وتدبر، عاجزی وانکساری، حق گوئی، حق پسندی اور راضی برضائے مولیٰ کا مجسمہ تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کے درجے بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے فیضان سے حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here