ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتے ہی، عالمِ اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ سیاسی اور معاشی طور پر دگرگوں صورتحال کے باوجود بھی عاشقانِ رسول ۖ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو انکی نبی رحمت ۖ سے محبت اور وفا کی غماز ہے۔ جگہ جگہ مولود شریف کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ نعتوں اور نشیدوں کی گونج سے پورے سماج میں ایک خوشگوارسماں بندھ جاتا ہے۔ اپنے پیارے رسول اللہ ۖ پر درود و سلام سے اپنی محبت کا اظہار کرتے کرتے، لوگ عاجز و درماندہ نہیں ہوتے۔ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا کہ!
کی محمد ۖ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں سب سے بڑا اختلاف عقیدہ نبوت پر ہے۔ سرور کائنات ۖ کو آخری نبی ماننا، قرآن کی آیات کی روشنی میں انتہائی ضروری ہے۔ آجکل لوگ وحدتِ ادیان کو عملی جامہ پہنانے کے چکر میں، وحدانیت پر اکتفا کرتے ہوئے، نبوت کو بھول جاتے ہیں حالانکہ اس کے بغیر دین مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے کہ!
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
(ترجمہ: محمد مصطفی ۖ سے اپنا رشتہ استوار کریں کیونکہ دین کی روح اور حقیقت انہی کے دم قدم سے ہے۔ اگر آنجنابۖ تک رسائی نہ ہوئی تو ان کے سوا باقی سارے راستے ابو لہبی اور گمرہی کی طرف جاتے ہیں۔ نبی اکرم ۖ کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق اطاعت و اتباع کا تو ہے ہی لیکن والہانہ عقیدت و محبت کا تعلق بھی انتہائی درجہ تک پہنچا ہوا ہے۔ پاکستان کے ایک سابق وزیرِ اعظم جناب عمران خان نے جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اس قلبی تعلق کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا تو اقوامِ عالم کے رہنماں اور عوام الناس کو پتہ چلا کہ آپ ۖ کے خلاف دشنام طرازی پر مسلمانوں کا ردِعمل اتنا سخت کیوں ہوجاتا ہے۔ مسلم دنیا کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے، اقوامِ متحدہ کے تحت، اب ہر سال مارچ، اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ خان نے عاشقانِ رسول ۖ کی جانب سے، وسیم بریلوی کی زبان میں سب کو شاید یہ پیغام پہنچایا تھا کہ!
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جائوں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جائوں گا
ربیع الاول کا یہ مقدس مہینہ رنگا رنگ تقریبات کے باعث، مسلمانوں کا نہ صرف ایمان تازہ کرتا ہے بلکہ انکے عشقِ رسول ۖ کے جذبے کو بھی مزید مہمیز لگا دیتا ہے۔ رات کے وقت، مساجد پر چراغاں اور دن میں بازاروں کا سجانا، ایک ایسے موسمِ بہار کی آمد کی اطلاع دیتا ہے کہ جس میں آنے والی ہستی کیلئے ماہرالقادری (مرحوم) نے ایسا خوبصورت سلامِ عقیدت پیش کیا کہ جس نے اردو زبان کی صنفِ نعت کو مزید چار چاند لگا دیئے ہیں۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس ذات پر، جس کے پریشاں حال دیوانے
سناسکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے
درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
درود اس پر، جسے شمع شبستان ازل کہئے
درود اس ذات پر، فخرِ بنی آدم جسے کہئے
۔۔۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔
٭٭٭









