اس دنیا میں جہاں بچے خوشیاں لاتے ہیں۔ جوان مضبوط سہارا ہوتے ہیں وہیں بزرگ بھی نعمت ہوتے ہیں (رحمت ہوتے) اگرچہ کے بزرگوں کو بوڑھا کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ بڑی ہی عجیب سی بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی لفظ عمر گنتی میں اتنا مایوس کن نہیں ہوتا جتنا یہ لفظ بوڑھا ہوتا ہے۔ اگر ایک چھوٹی عمر کے انسان کو بچہ کہا جائے تو وہ شاید یہ کہہ دے کہ میں بچہ نہیں ہوں بڑا ہو گیا ہوں ۔ نہ سننے والے کو عجیب لگے گا نہ وہ بچہ کسی دلآزاری میں مبتلا ہو گا۔
ایک جوان انسان کو کہا جائے کہ تم جوان ہو ہر کام انجام دے سکتے ہوں، طاقت ور ہو، ہاتھ پائوں اور دماغ چل رہا ہے تو وہ مزید قوت محسوس کرلے گا اور ہر کام کرنے کو تیار ہو جائے گا۔ لیکن اگر ایک عمر رسیدہ انسان کو یہ کہا جائے کہ تم بوڑھے ہو تو یہ لفظ اس کے اندر سے توانائی کھینچ لے گا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا جائے کہ تم تو بیٹھ جائو اور تسبیح پڑھو۔ اپنے بڑھاپے کا خیال کرو اور ہر کام سے میں احتیاط رتو یہ لفظ بڑھاپا اس کی تمام قوت سلب کر لیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کمزور سمجھنے لگتا ہے اس کی قوت ارادی تک کم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو بیکار سمجھ کر بستر کو اپنے لیے بہتر جانتا ہے اور اسی میں اپنی زندگی کے دن گزارنے لگتا ہے۔ چاہے وہ لمبی عمر پائے پھر بھی اس کی قوت فیصلہ ختم ہو نے لگتی ہے ہاتھ پائوں اور دماغ پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
اگر کسی آدمی کو جو اپنے اندر قوت طاقت رکھتا ہو کام کرنے کی ہمت بھی ہو بار بار یہ کہا جائے تم بوڑھے ہو تو یہ لفظ اسے کمزور کردیتا ہے کچھ لوگ جیسے ہی ان کے بچے جوان ہوتے ہیں خود کہنے لگتے ہیں اب تو ہم بوڑھے ہو گئے ہیں، مائیں گھر کا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں، باپ بیٹوں کے جوان ہوتے ہی اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ بچوں کے جوان ہوتے ہی اپنے آپ کو کمزور اور بوڑھا سمجھنا ان کو واقعی کمزور کر دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے بوڑھے کو اگر بوڑھا نہ کیا جائے تو کیا کہا جائے۔ ہر قوم میں بوڑھے کو کسی نہ کسی نام سے پکارا ہی جاتا ہے مگر ہمارے ہاں عمر رسیدہ افراد کو ویسے تو بہت احترام دیا جاتا ہے۔ اتنا احترام کے وہ وقت سے پہلے اپنے آپ کوبوڑھا اور ناتواں سمجھنے لگتے ہیں۔ کھانا بستر پہ لا کر دیا جاتا ہے۔ ہرقدم پر ہاتھ پکڑا جاتا ہے اور اور بھی بہت کچھ ہم احترام سے کرتے ہیں یوں یہ لوگ اپنے آپ کو آزاد سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں اور سہارا مانگتے ہیں یا پھر ایسے لوگ بھی جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود جوانوں کی طرح رہن سہن پہننا اوڑھنا کر لیتے ہیں تاکہ کوئی انہیں بوڑھا کہہ کر نہ پکارے۔ یہ لفظ ایک ایسا لقب بن گیا ہے جو کوئی بھی کہلوانا پسند نہیں کرتا۔ ایک زمانہ تھا کسی بڑے کو دیکھک ر یہ کہا جاتا تھا آپ ہمارے بزرگ ہیں آپ نے دنیا دیکھی ہے اس لیے آپ قابل احترام ہیں ہمیں کچھ سکھائیے کچھ بتائیے۔ ہماری اصلاح کیجئے اور ایسے میں وہ بڑی عمر کا آدمی اپنے آپ کو معتبر سمجھتا، عقل مند سمجھتا، مشورے دیتا۔ حتیٰ کے کھانے پینے کی چیزیں بتاتا کہ وہ کیوں کر ابھی تک جوان ہے۔ اسے عزت کروانا اچھا لگتا، کیونکہ وہ گھر کا بزرگ ہوتا یعنی ایک ایسا انسان جس نے اس دنیا میں اپنا قیمتی وقت گزارا ہے آج ہم صرف یہ کہتے ہیں آپ بوڑھے ہو گئے ہیں ریٹائرڈ ہو جائیں، اپنا بلڈ پریشر چیک کرائیں، بچے اپنے والدین کو دن بدن اپنی محبت کا احساس یہ کہہ کراتے ہیں کہ ابا آپ بوڑھے ہو گئے ہیں اپنی صحت کا خیال کریں میٹھا مت کھائیں، نمک سے پرہیز کریں۔ امی کو بھی یہی کہا جاتا ہے اماں آپ بوڑھی ہو گئی ہیں گھر سے کم نکلیں، کھانا مت پکائیں وغیرہ مگر ان کو ہمارے بزرگ ہمارے بڑے کہنا چھوڑ دیا ہے مشورے لینا اور اپنے فیصلوں میں ان کو شامل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ صرف بوڑھے ہیں بزرگ نہیں۔