دھرنے کا مقصد کیا تھا؟

0
178
جاوید رانا

قارئین کرام! آج جس موضوع پر میں اظہار خیال کرنے کی جرأت کر رہا ہوں، ممکن ہے وہ بعض قارئین یا حلقوں کیلئے حساسیت کے جذبات کو متاثر یا مجروح کرنے کا مفروضہ بنے۔ الحمد اللہ میں ایک راسخ العقیدہ سُنی مسلمان ہوں اور نبی آخر الزماں آقائے دو جہاں حضرت محمدۖ، اہلبیت، صحابہ کرام، اولیائے کرام و آئمہ کرام سے محبت و عقیدت رکھنے والا ہوں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ حضرت داتا گنج بخش، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت نظام الدین اولیائ کے مزارات پر حاضری بھی دی اور مجھے چادر مبارکہ و دستار بندی کے شرف سے نوازا گیا۔ ایں سعادت بزور بازو نیست کے مصداق اس میں میری کوئی خُوبی نہیں، یہ میرے آقا و مولیٰ حبیب کبریا کا نظر کرم ہے کہ اس حقیر اُمتی کو اس سعادت سے نوازا۔ آقائے کریمۖ سے محبت جزو ایمان ہے اور رسول پاکۖ کی حُرمت پر ہر مومن کی جان و مال سب قربان ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس سال بھی 12 ربیع الاول کو شمع رسالت کے پروانوں نے جشن میلاد النبیۖ کے فیوض و برکات سمیٹے اور قلوب و اذہان کو حب نبیۖ سے معطر کرنے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیبۖ سے اپنی محبت و وارفتگی کا عقیدت مندانہ اظہار کیا۔ پاکستان کے دل لاہور میں لبیک یا رسول اللہ کی داعی مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان المعروف ٹی ایل پی نے بھی اپنے مرکز مسجد رحمت اللعالمین میں بھی اس دن لاکھوں ارکان پر مبنی اجتماع کا اہتمام کیا۔ پھر ہوا یہ کہ شان نزول رحمت اللعالمینۖ کے یوم بعثت کا یہ مجمع ایک احتجاجی ہنگامہ آرائی اور ریاست و حکومت کی رِٹ پر کاری ضرب کی شکل اختیار کر گیا۔ دو ہفتے سے بھی زیادہ جاری رہنے والے اور سارے پنجاب کی صورتحال کی تباہی سینکڑوں پولیس والوں کی مضروربیت، 5 اہلکاروں کی شہادت نیز خود ٹی ایل پی کے متعدد لوگوں کی مضروبیت و شہادت کے بعد ایک ایسے معاہدے پر ختم ہو گیا جس کی تفصیلات کو تادم تحریر حکومتی جانب سے خفیہ ہی رکھا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب اس معاہدے کے دوسرے فریق مفتی منیب الرحمن نے جو انکشافات کئے وہ محض سیاسی پہلوئوں پر مبنی تھے اور ان کے بنیادی مطالبے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہ تھا۔
ٹی ایل پی کا بنیادی نعرہ اور موٹو حُرمت رسولۖ اور شعائر اسلام کیخلاف ہونیوالی کسی بھی گُستاخی کیخلاف جدوجہد ہے۔ اس تنظیم کو اس حوالے سے ملک میں نہایت مقبولیت بھی حاصل رہی ہے اور اس کے بانی و متحرک خادم حسین رضوی کے حب رسولۖ اور خطبات کے باعث معتقدین اور پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اہلسنت و بریلوی مسلک مذہبی جماعت ہونے کے باعث دیگر بریلوی مسلک جماعتوں کی حمایت بھی اسے حاصل ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں اس جماعت نے پنجاب میں تیسری بڑی جماعت کے طور پر ووٹ حاصل کرنے کیساتھ کراچی اور دیگر شہروں میں بھی نشستیں حاصل کیں۔ گویا اس اعتبار سے فی الوقت یہ سب سے مقتدر مذہبی و سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود اگر ٹی ایل پی کے بحیثیت مذہبی جماعت اس کے 2013ء سے اب تک کے کردار و واقعات پر نظر ڈالیں تو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل سے لے کر حالیہ ہنگاموں میں فرض کی ادائیگی کرنے والے پولیس اہلکاروں کی شہادتوں تک جنونیت، تشدد اور ہٹ دھرمی کا عنصر ان کا شیوہ نظر آتا ہے۔ 2017ء کے دھرنے میں جو کچھ ہوا قارئین اس سے بخوبی واقف ہیں، اور تفصیل سے گریز کرتے ہوئے حالیہ ایشو پر ہی کچھ بات کر لیتے ہیں۔ 12 ربیع الاول کے دھرنے اور فسادات کا سلسلہ فرانس میں ہونیوالے گستاخانہ خاکوں اور فرانسیسی صدر کی حمایت اور تضحیکی کردار و رویوں سے ٹی ایل پی کے مطالبے کی تحریک سے منسلک تھا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان اور حکومت پاکستان نے نہ صرف سخت احتجاج کیا تھا بلکہ ایشو کو عالمی فورمز تک لے گئے تھے لیکن ٹی ایل پی نے اس معاملے پر دھرنا اور احتجاج کرتے ہوئے سارے ملک کو بند کر دیا تھا۔ اس دھرنے کے باعث حکومت کو متعدد اقدامات کرنے پڑے تھے جس میں دھرنے اور بگڑتی ہوئی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے ایک معاہدہ ہوا اور اس کا بنیادی مطالبہ تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ اب جو دھرنا ہوا اس کا مرکز بھی یہی نقطہ یا مطالبہ تھا۔ اس دھرنے میں دیکھا یہ گیا کہ تمام تر بریلوی العقیدہ جماعتیں بھی ٹی ایل پی کی حمایت کرتی نظر آئیں۔ دوسری جانب وزیراعظم اور ان کے وزیر داخلہ و اطلاعات ٹی ایل پی کی اس ہنگامہ آرائی، دہشت و بربریت اور پولیس اہلکاروں کی شہادتوں کے باعث ان سے کسی بھی نرمی، گُفت و شنید یا اقدام کیلئے تیار نظر نہیں آئے، تاہم جب حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو مذاکرات کی ضرورت پیش آئی۔ قبل ازیں وزیر داخلہ کسی بھی طرح کی نرمی برتنے کو تیار نہ تھے جبکہ وزیر اطلاعات نے تو ٹی ایل پی کو دہشتگرد تنظیم اور راء سے فنڈنگ کا بھی دعویٰ کر دیا تھا۔ (واضح رہے کہ ٹی ایل پی کو پہلے ہی دہشتگرد مذہبی تنظیم قرار دے کر کالعدم قرار دیا جا چکا تھا جبکہ الیکشن کمیشن میں یہ سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ ہے)۔
بہر حال گزشتہ ہفتے معاہدہ عمل میں آیا۔ شروع کی سطور میں اس حوالے سے ہم مفتی منیب کے حوالے سے ذکر کر چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی جانب سے کوئی واضح اعلان آنے کے برعکس وزراء اور ترجمانوں کے متضاد بیانات نے اس معاملے کو کنفیوژن کا مظہر بنا دیا ہے۔ ہماری تحقیق اور بعض ذرائع سے اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ معاہدے میں ٹی ایل پی گستاخیٔ رسولۖ پر فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو گئی ہے جبکہ حکومت نے سعد رضوی سمیت تمام گرفتار شُدگان بشمول دہشتگردی میں گرفتار کو رہا کرنے پر رضا مندی کر دی ہے۔ ٹی ایل پی کو کالعدم کے زمرے سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ غور کیجئے کہ حب رسولۖ کو بنیاد بنا کر سیاسی مفادات کا حصول کیا کوئی معقول جواز یا اقدام ہے اور کیا ایک ایسی مذہبی تنظیم کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ تشدد کا راستہ اپنا کر، معصوم و بے گناہ لوگوں کو شہید کر کے اپنے ذاتی، گروہی یا سیاسی مقاصد حاصل کرے۔ پیارے رسولۖ رحمت المسلمین ہی نہیں رحمت اللعالمین ہیں اور ان کے نام لیوا ہی ان کے امیتوں کا قتل عام کریں تو یہ دینی مقصد ہے یا سیاسی۔ حالیہ دو دھرنوں میں شہید ہونیوالے 9 پولیس اہلکار بھی رسول پاکۖ کے نام لیوا تھے۔ غلام رسول اور ابوبکر کو شہید کرنے والے عاشقان رسول ہی تو تھے۔ کیا ان کا یہ عمل حبیب خداۖ کی نظر میں مستحسن ہوگا؟ دین کے نام پر دہشت تو مومن کا عمل نہیں ہو سکتا۔
اس معاہدے سے ایک یہ پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ ہمارے حکمران بھی اپنے نظام حکومت کے مکمل نفاذ پر یکسو نہیں، معاہدے کی تفصیلات میں نہ فرانسیسی سفیر کے حوالے سے اور نہ ہی سعد رضوی کے حوالے سے کوئی نشاندہی کی گئی۔ معاہدے کے بعد شیخ رشید اور فواد چودھری کے بیانات اور مذاکرات میں شاہ محمود، اسد قیصر اور علی محمد خان کی حکومتی نمائندگی بھی قابل غور ہے عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے۔ بہر حال مذہب کی آڑ میں سیاسی مفاد کا حصول دین و دنیا دونوں میں اچھی علامت نہیں شاید اسی کو منافقت کہتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here