فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
44

محترم قارئین! حضور پر نور ۖ کا فرمان عالیشان ہے کہ میری امت کو رمضان شریف میں پانچ ایسی باتیں عطا ہوئیں ہیں جو اس سے پہلے امتوں میں سے کسی کو عطا نہیں ہوئی وہ روزہ دار کے منہ کے بدبو اللہ تعالیٰ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ فرشتے ان کے روزے افطار کرنے تک ان کے لئے دعائے مغفرت اور بخشش طلب کرتے ہیں۔ منکر شیطان ہیں ماہ میں قید کردیئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر دن جنت کو سنوارتا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ عنقریب میرے بندے اس میں داخل ہونگے۔ ان سے تکلیف اور اذیت دور کردی جائے گی۔ آخر میں انہیں بخش دیا جائے گا۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ! ۖکیا اس سے مراد لیلة القدر ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن کام کرنے والا کام پورا کرے تو اسے مزدوری پوری ملتی ہے۔ روزہ کا سر اور وجود بھی بہت زیادہ ہیں۔ جن میں سے چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ روزہ رکھنے سے کھانے پینے اور شہوانی لذات میں کمی ہوئی ہے۔ اس سے حیوانی قوت کم اور روحانی قوت زیادہ ہوتی ہے۔ بھوک اور پیاس پر صبر کرنے سے انسان کو مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ بھوک پیاس کی وجہ سے انسان گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے۔ وہی بھوکا، پیاسا رہنے سے انسان کا تکبر ٹوٹتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کھانے پینے کی معمولی مقدار کا کس قدر محتاج ہے۔ بھوکا رہنے سے ذہنی سکون ہوتا ہے اور بصیرت کام کرتی ہے حدیث شریف میں ہے۔ ”جس کا پیٹ بھوکا ہو اس کی فکر تیز ہوتی ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ بہت ہی عظمت والا شان والا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں نیکیوں کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس ماہ مبارک میں غفلت سے بیدار رہیں۔ کرالٰہی عزوجل، استغفار، درود شریف کا ورد جاری رکھیں۔ استغفار کے بارے میں حدیث پاک میں بہت فضلیت آگئی ہے۔ حضور اکرمۖ نے اشراد فرمایا: جو استغفار کرے گا اس کا برغم رفع ہوگا اور ہر تنگی سے وہ نجات پائے گا اور اس کو رزق اس جگہ سے سے پہنچے جہاں اس کا وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔ ملا علی قاری علیہ الرحمة شرح مشکوٰة میں فرماتے ہیں”کیا وجہ ہے کہ مئومن کا رزق استغفار پڑھنے سے بڑھ جاتا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی بندہ گناہ کرتا ہے اور اس کیلئے کوئی کفارہ بھی ادا نہیں کرتا تو اس کا رزق اسکے گناہوں کے کفارے میں آجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی معاش میں تنگی ہوجاتی ہے۔ اور جب وہ استغفار کرنے لگتا ہے تو اس وقت یہ استغفار اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ اور رزق کشادہ ہوجاتا ہے” مذکورہ روایت سے ظاہر ہوگیا کہ گناہ تنکی رزق کا سب ہیں۔ آج کل ہر کوئی رزق میں تنگی کی شکایت کرتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا معاشرہ گناہوں سے آلودہ ہے۔ اور گناہوں کے ساتھ ساتھ استغفار اور ذکر و درود سے بھی غافل ہے۔ اگر ہم اپنے معاشی بحران کے حل اور فراخئی رزق کے خواہاں ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم گناہوں کو چھوڑ کر ذکر و درود اور استغفار میں مشغول ہوجائیں۔ افسوس صد افسوس! اغیار ہمارے اسلاف کے طریقے پر چل کر اور ہماری کتابیں پڑھ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئے لیکن ہم نے اپنی کتابوں اور اسلاف کے طریقہ کار کو مکمل طور پر یہیں پشت ڈال دیا ہے اور اغیار کی غلیظ رسموں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم لایعنی فکروں اور مصائب میں گرفتار ہیں۔
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت۔ سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول کریمۖ نے ارشاد فرمایا کہ”استقبال ماہ رمضان کے لئے جنت کو پورا سال آراستہ کیا جاتا ہے جب رمضان المبارک کی پہلی شب ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ہوا کے جھونکے آتے ہیں۔ جنہیں ”شیرہ” کہا جاتا ہے ان ہوا کے جھونکو سے جنتی درختوں کے پتے اور جنت کے دروازوں کے پٹ آپس میں ٹکراتے ہویں تو ایسی دلکش آواز پیدا ہوتی ہے جس سے سریلی آواز کسی سننے والے نے کبھی نہ سنی ہو پھر جنت کے بالا خانوں پر کھڑے ہو کر حورالعین آوازیں دیتی ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کی خاطر ہمارے عقد میں بندھنے کے لئے کوئی ہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمارے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کردے۔ پھر رضوان جنت سے پوچھتی ہیں کہ یہ کسی رات ہے تو وہ جواب دیتا ہے اے حسن وجمال والیو! یہ ماہ رمضان المبارک کی پہلی شب ہے۔ اللہ تعالیٰ رضوان جنت کو حکم دیتا ہے۔، اے رضوان جنت! امت محمدۖ میں سے روزہ داروں کے لئے جنت کے دروازے بند کر دو۔ اے جبریل! زمین پر چلے جائو۔ سرکش شیطانوں کو بیٹریاں ڈال دو، زنجیروں میں جکڑ دو، سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں اٹھا پھینکن تاکہ میرے حبیب مکرمۖ کی امت پر روزوں کے حوالے سے فساد پیدا نہ کرسکیں۔” رتنبیہ الغافامین لیکن لوگ ان تمام سہولیات کے باوجود طاقت ہونے کے باوجود روزہ نہیں رکھتے یہ لوگ اپنی غلط عادتو کے شیطانوں کے ساتھ مجبور ہیں۔ احادیث میں کوئی شک نہیں ہمیں اپنا سخت محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا ہے تو رسول اللہۖ سب قیدیوں کو رہا فرما دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے تھے۔ یقیناً ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے محبوبۖ کی عطائوں کا سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری وساری ہے۔ بس ہمیں جھولی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان المبارک کی برکتیں عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here