محترم قارئین! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دس سال دور خلافت گزارا، اہل اسلام کو ہر طرف سے شریعت، مطھرہ پر عمل کرنے سے بھر دیا۔نبی پاکۖ کی تعلیمات پر خود بھی عمل کیا اور تمام اہل اسلام کو بھی اس کا عادی وخوگر بنا دیا۔ابن سعد نے حسن رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا:میں تمہارے ساتھ اور تم میرے ساتھ مبتلا کئے گئے ہو۔اور اپنے دونوں بزرگواروں علیھا السلام کے بعد اب میں تم میں ظاہر ہوا ہوں۔جو لوگ ہمارے پاس ہیں انہیں تو ہم بنفس نفیس ملیں گے جو ہم سے غائب ان پر ہم کسی اہل قوت و امانت کو حاکم بنائیں گے جو شخص نیکی کرے گا ہم اس کے ساتھ بھلائی کریں گے اور جو شخص برائی کرے گا اسے ہم سزا دیں گے ،اب دعا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں اور ہمیں بخشے حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حذیضہ رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ لوگوں کے وظائف اور تنخواہیں دیدو۔انہوں نے جواب میں لکھا تنخواہیں وغیرہ سب دیدیں اور بہت سا مال باقی بچ رہا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا وہ غنیمت ہے جو انہیں خدا تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہے۔وہ نہ عمر کے لئے ہے اور نہ آل عمر کے لئے اسے انہیں میں تقسیم کرو۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آخری حج جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھن کے ساتھ کیا، تو میں نے ایک سوار شخص کو دیکھا جو دوسرے سے کہہ رہا تھا امیرالمئومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کس جگہ تھے۔اس نے کہا کہ اسی جگہ تھے۔اس جگہ اس نے اپنی اونٹنی کو بٹھا دیا اور پھر بلند آواز سے یہ شعر پڑھے۔ترجمہ:اے امام تجھ پر سلام ہو اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ جیسا اسکی شان کے لائق ہے۔اس پارہ پارہ کردہ چمڑے میں برکت عطا فرمائے۔جو شخص آپکے عمل جیسے اعمال حسنہ حاصل کرنے کیلئے دوڑے یاشتر مرغ کے بازئوں پر سوار ہوجائے تو وہ مسبوق ہی ہوگا اور آپ رضی اللہ عنہ ہی سابق رہیں گے آپ نے کئی امور کا فیصلہ کیا جو شگفتہ نہیں ہوئے اور ہلاکتوں کو ان کے خلاف میں ہی بند کردیا گیا۔حضرت عائشہ صدیقی رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ یہ کہنے کے بعد سوار نے تھوڑی سی حرکت کی۔اور غائب ہوگیا نامعلوم کہ وہ کون تھا؟ہم نے کہا کہ شاید وہ جن ہوگا۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج سے واپس ہوئے تو خنجر سے شہید کر دیئے گئے۔نخعی سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اپنے بیٹے عبداللہ کو خلیفہ کیوں نہیں بناتے؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تجھے خدا غارت کرے،میں نے کبھی خدا تعالیٰ سے یہ بات نہیں چاہی کہ میں اس شخص کو خلیفہ بنائوں جیسے اپنی عورت کو طلاق دینے کا طریقہ بھی نہیں آتا؟یہ بات آپ رضی اللہ عنہ کی دنیا سے بے رغبتی اور دینی وفاداری کی واضح دلیل ہے ،باقی یہ آپ کا فیصلہ تھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بھی اللہ پاک نے بڑی عظمتوں اور بڑی شانوں سے نوازا تھا۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خنجر سے زخمی کردیا گیا تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ آپ اگر اپنے بقا کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اور زندگی عطا فرما دے،امام حاکم رضی اللہ عنہ نے مالک بن دینا رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا تو جبل تبالہ سے یہ آواز سنی گئی:ترجمہ:جو شخص اسلام پر رونا چاہے اسے چاہئے کہ رولے، کیونکہ رسول اللہۖ کے ظاہری عھد کو زیادہ زمانہ نہیں گزرا۔مگر قریب ہے کہ سب لوگ مقتول ومضروع ہوجائیں۔دنیا بھی چلی گئی اور اس کا بہترین شخص بھی چلا گیا اور جو شخص وعدے پورے کیا کرتا تھا ،دنیا نے اس کو ملول کردیا۔ابن ابی دنیا رضی اللہ عنہ یحیٰی بن راشد بصری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو وحیت کی کہ میرے کفن میں میانہ روی اختیار کرنا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کے پاس میری بھلائی ہوگی تو وہ مجھے اس سے عمدہ لباس عطا کرے گا۔اور اگر میں ایسا نہ ہوا تو وہ بھی مجھ سے چھین لے گا۔اور میری قبر میں بھی میانہ روی اختیار کرنا،کیونکہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ جگہ کا مسحق ہوں گا تو جہاں تک میری نظر کام کرتی ہے خدا تعالیٰ اسے وہاں تک فراخ فرما دے گا اور اگر میں اس لائق نہیں تو وہ اسے اس قدر تنگ کردے گا کہ میری پسلیاں ایک طرف سے دوسری جانب چلی جائیں گی، کوئی عورت میرے جنازے کے ساتھ نہ نکلے۔جو صفات مجھ میں نہیں ہیں ان سے مجھے یاد نہ کرنا، کیونکہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے جب جنازے کے لئے باہر نکلو تو جلدی چلنا کیونکہ اگر میرے لئے خدا تعالیٰ کے ہاں بھلائی ہے تو مجھے تم نہایت اچھی چیز کی طرف لے جارہے ہو گے۔اور اگر میں اس کے برعکس تو اپنے کندھوں سے ایک برُی چیز کا بوجھ پھینک دو گے۔زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر وبن عاص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ سے کیا معاملہ کیا؟آپ نے فرمایا مجھے فوت ہوئے کتنا عرصہ ہوگیا ہے؟عبداللہ نے کہا قریباً بارہ سال آپ نے فرمایا ابھی میں نے حساب سے خلاصی پائی ہے۔کیا عاجزی ہے؟کیا شان ہے؟کیا عظمت ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کے درجے بلند فرمائے اور ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے