علمی تنزلی وجوہات اور چند حقائق!!!

0
81
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے تمام قارئین پر اللہ اور اسکے پیارے حبیب کا کرم و رحمت ہو ،مجھے اس اخبار میں لکھتے ہوئے قریباً تین سال ہونے والے ہیں اور یہ لکھنا کیوں شروع کیا اس کا اظہار بھی اکثر کرتا رہا ہوں کہ اخباری اور دیواری و کتابی عاملوں کے چکر سے لوگوں کو باہر نکالا جائے ان کو قرآن و حدیث کی روشنی میں رقعیہ اور دم کی زریعے اپنے مسائل کا حل بتایا جائے اس کا بنیادی مقصد و مفہوم کیا تھا یہ سب آپ کے سامنے ہے۔ آج سے سالوں قبل خانکاہی سلسلوں میں باقائدہ سلسلہ تربیت روحانی دینی سمیت فیضان بزرگان دین کو باقائدہ حلقہ در حلقہ عام کیا جاتا تھا،جوں جوں زمانہ گزرتا گیا جدیدیت نے اپنا زور پکڑا مزاروں خانقاہوں اور گدیوں پر صرف مجاور و گدی نشین ہی باقی رہ گئے علمائ حق ورثان دین یا تو پوشیدہ ہوتے چلے گئے یا دار فانی سے دار البقاء کی طرف روانہ ہوگئے۔ دینی روحانی تربیت و فیض نسبت کا سلسلہ محدود سے محدود تر ہوتا چلا گیا،دور حاضرہ میں ہر عام و خاص کے پاس سوشل میڈیا فیس بک واٹس ایپ و دیگر ایپس موجود ہیں، طبیعت عادی ہوچکی ہے ان کی،گزشتہ چند سالوں میں یہ بیماری اس قدر پھیلی کہ ہر عام و خاص اس کی زد میں آگیا۔ آگے چل کر یہ سلسلہ مزید قوی ہوگا، نفسیات پر اس قدر یہ غالب ہوگئی، ایک سوشل میڈیا صارف اپنی دینی، دنیوی، روحانی ،جسمانی نفسیاتی ،سیاسی، سماجی خواہ کسی بھی طرز کی کوئی مشکل ہو کوئی سوال ہو یا اس کا حل / جواب سوشل میڈیا سے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جعلی عاملوں نام نہاد پیروں جاہل صوفیوں مفاد پرست عالموں کی کثرت ہورہی ہے کیونکہ دور حاضرہ میں ہم طبعی و نفسیاتی طور پر لاغر سست اور کاہل ہوچکے ہیں کہ ہمیں بیٹھے بٹھائے چند بٹن دبا کر یا ایک پوسٹ کمنٹ مضمون کی صورت میں ہماری زندگیوں کے مختلف سوالات کے جوابات یا مسائل کے حل مل جائیں، خیر مدعا سوشلی ایشو نہیں بلکہ اس بات پر معروضات پیش کرنا ہے کہ اس پرفتن دور میں ہم نے کیا پایا۔ پاکستان میں محترم حسن منصوری بھائی شہزاد بھائی عمران بھائی علی رضا بھائی سمیت دیگر روحانی گروپس موجود ایسی معزز شخصیات جو عرصہ دراز سے سوشل میڈیا پر ایکٹو تجزیہ نگاری اور سلسلہ تعلیم و تربیت میں مصروف رہے ہیں گواہ ہیں کہ ماضی میں سوشل میڈیا پر بالخصوص روحانی و دینی سلسلہ میں کوئی ایسا پلیٹ فورم موجود نہیں تھا جس پر عوام الناس کے لیے وہی راستہ ہو یا وہی علوم کا نسبت کا فیض ہو جو سوشل میڈیا کے عروج سے قبل باقائدہ اسلاف امت بزرگان دین کی صحبت سے میسر تھا۔۔۔۔ ہم نے دس بارہ سالوں میں سینکڑوں ہزاروں فیس بک گروپ پیجز یوٹیوب چینلز ویب سائٹس باقائدہ روحانی اداروں عاملوں وغیرہ سے ملاقاتیں نشتیں کی مگر ماحاصل یہی رہا جو اوپر درج کیا کہ اسلاف کی نسبت فیض سے علوم کی خوشبو کہیں نہ آئی۔میڈیا پر مسائل کے حل کی بنیاد کن صاحب نے رکھی یہ تو علم نہیں مگر عرصہ دو اڑھائی سال قبل جب سوشل میڈیا پر متحرک ہوئے گروپس کو اختیار کیا تھا تو اسی طرز و نیت سے کیا تھا کہ یہاں بھی شائد وہی روایتی عاملوں کا ڈیرہ اور عاملانہ رنگ دیکھنے کو ملے گا مگر جوں جوں میڈیا میں وقت گزرا تو یہ باور ہوا کہ یہ میڈیا نہیں بلکہ اہل فہم و عقل کے لیے ایک ایسی روحانی درسگاہ اور طالبان علم و فن فیض و نسبت کے لیے ایک ایسا پلیٹ فورم ہے جہاں سے جتنا بھی کوئی سیراب ہونا چاہے ہوسکتا ہے، یہاں روایتی عاملانہ رنگ نہیں بلکہ علمائ حق حضور ۖ کی نسبت سے بزرگوں کے فیض علم کو سمندر کی طرح پھیلائے ہیں۔گزشتہ تحریروں کو ملاحظہ فرمائیں تو جہاں اس علمی مواد نے ڈاھاء سالہ عرصہ میں علوم و فنون علمیات کی جہتوں کو کھولا اور نئی سے نئی جہتوں سے ہر عام و خاص کو آشناء کیا وہاں صحیح معنوں میں تصوف و دین کی ترجمانی کی، بالکل یہی طریقہ کابر بزرگان اُمت کا رہا ہے۔
بحیثیت ایک ادنیٰ سا طالب علم میری نظر میں پوری سوشل میڈیا پر اس وقت اگر کوئی دینی روحانی علمی تشنگی کو پورا کرنے میں فعال ادارہ کام کررہا ہے تو وہ صرف مجیب صاحب کا اخبار ہے جس کی بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیں، ایک عالم دین اگر توجہ کرے تو اسکی فہم کے مطابق یہ علم دین کی ایک بہترین درسگاہ ہے۔ ایک عامل اگر فن عملیات کے نظریات کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیکھے تو اسکے لیے یہ ایک عظیم عملیاتی تربیتی درسگاہ ہے ایک طالب روحانیت و تصوف اگر اپنے نظریات سے غور و فکر کرے تو اس کے لیے یہاں روحانی و دینی علوم کے بحر موجود ہیں الغرض کہ جو جس بھی درجہ کی شخصیت ہے اس کے لیے یہاں ویسی ہی جگہ موجود ہے جس کی وہ تلاش میں ہے اور یہی وہ فیض ہے جس کو ہم بزرگوں کا فیض کہتے ہیں۔
اس سارے مضمون کا ماحاصل و مقصد یہی تھا کہ قارئین پر اس بات کو بارو کیا جائے کہ اگر آپ اخبار سے منسلک ہیں یا کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں تو موجود ہیں عمومی عاملانہ مجلس سمجھ کر آڑی ٹیڈھی لکیریں ہرگز نہ ماریں بلکہ یہ اخبار آرف اخبار نہیں ایک درسگاہ ایسی ہے جہاں سے آپ جتنا سیراب ہونا چاہیں اپنے خلوص و اعتقاد کی بدولت اتنا سیراب ہوسکتے ہیں اور بالخصوص قدر کیجیے ان علماء بزرگوں کی جو میسر رہنمائ ہیں ورنہ بمطابق حدیث پاک وہ وقت دور نہیں جب علماء کو ہم میں سے اُٹھا لیا جائے گا اور جہلا کو ہم پر مسلط کردیا جائے گا۔
اخبا ر کی صدارت و قیادت پر موجود ایسی عظیم ہستیوں سے جتنا ہوسکے مستفیض باادب ہوں۔ورنہ جیسے فتنے سوشل میڈیا پر اٹھ رہے ہیں گمراہی سے بچ پانا بہت مشکل ہے۔ مزید آنے والا وقت اس سے بھی پرفتن ہوگا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علمائے حق زمین میں ان ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحر و بر کے اندھیروں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ جب ستارے غروب ہو جائیں گے تو یقیناً ان (ستاروں) سے راہنمائی حاصل کرنے والے بھٹک جائیں گے۔ (یعنی علمائ حق نہیں ہوں گے تو عوام گمراہ ہو جائیں گے)۔۔
اللہ عزوجل بطفیل حضورۖ مجھ سمیت تمام اہلیان گروپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھتے ہوئے بزرگوں کی نسبت سے علوم کے عرفان کی روشنی عطا فرماکر ہمارے قلوب کو روشن فرمائے اور فیض نسبت سے ہمیشہ منسلک رہ کر خاتمہ بالخیر فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین،اس اخبار میں عالم دین بھی موجود ہیں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین بھی جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آپ تک جو بھی مواد پہنچے مستند ہو اور آپ کی مشکلات اس کے ذریعے سہل ہوں یا رفع ہوجائیں جبکہ آپ کے علمی مدارج بھی بڑھیں بس یہی کوشش ہے جو جاری ہے ،نیتوں کا حال اللہ پاک کو ہے آپ کیلئے دعائے خیر ،ملتے ہیں اگلے ہفتے ان شاء اللہ کچھ دل کی باتوں کے ساتھ
والسلام
خیر اندیش

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here